وَتَوَلَّىٰ عَنْهُمْ وَقَالَ يَا أَسَفَىٰ عَلَىٰ يُوسُفَ وَابْيَضَّتْ عَيْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيمٌ
یعقوب نے ان کی طرف سے منہ پھیر لیا اور کہنے لگے : ہائے یوسف! اور ان کی آنکھیں غم سے بے نور ہوگئی تھیں اور وہ [٨٢] خود غم سے بھرے ہوئے تھے
حضرت یعقوب کا بنیامین کی گم گشتگی میں بازیافتگی کی ایک نئی امید محسوس کرنا اور بیٹوں کو جستجوئے مقصود میں روانہ کرنا، بالآخر پردہ راز کا ہٹنا اور کرشمہ حقیقت کا سامنے آجانا۔ (ا) اب یہ سرگزشت عبرت اپنی آخری منزل سے قریب ہورہی ہے، جب یوسف کے بھائی بنیامین کے معاملہ میں مایوس ہوگئے تو آپس میں مشورہ کرنے لگے کہ اب کیا کرنا چاہیے۔ تورات میں ہے کہ جب حضرت یعقوب راضی نہیں ہوتے تھے کہ بنیامین کو جدا کریں تو روبن نے خصوصیت کے ساتھ اس کی حفاظت کا ذمہ لیا تھا۔ (پیدائش : ٣٨: ٤٢) اور روبن ہی ان سب میں بڑا تھا، پس اس نے کہا، یوسف کے معاملہ میں ہم سے جو بدعہدی ہوچکی ہے اس کا داغ اب تک باپ کے دل سے مٹا نہیں، اب بنیماین کے لیے ہم نے قول و قرار کیا تھا اس کا نتیجہ یہ نکلا، میری ہمت تو پڑتی نہیں کہ باپ کو جاکر منہ دکھاؤں تم جاؤ اور جو کچھ گزرا ہے بے کم و کاست سنا دو۔ چناندہ بھائیوں نے ایسا ہی کیا اور گھر آکر تمام سرگزشت باپ کو سنا دی۔ (ب) غور کرو، قرآن واقعہ کی جزئیات نقل کرتے ہوئے کس طرح دقیق سے دقیق پہلو فطرت انسانی کے ملحوظ رکھتا ہے؟ بنیامین ان سب کا بھائی تھا، ماں ایک نہ سہی مگر باپ تو ایک ہی تھا، لیکن انہوں نے یہ نہیں کہا کہ ہمارے بھائی نے چوری کی، بلکہ کہا تیرے لڑکے نے چوری کی، اس ایک بات میں کتنی باتیں چھپی ہوئی ہیں؟ اس میں طعن ہے، تحقیر ہے، ملامت ہے، اپنی بڑائی ہے، مغرورانہ بریت ہے اور پھر حد درجہ کی سنگ دلی کہ ایسے موقع پر بھی جبکہ بوڑھے باپ کے دل پر ایک نیا زخم لگنے والا تھا طعن تشنیع سے باز نہ رہ سکے اور کہا یہ ہے تیرا چہیتا بیٹا جس نے چوری کا ارتکاب کیا اور ہم سب کو مصیبت میں ڈالا۔ (ج) معلوم ہوتا ہے حضرت یعقوب نے بنیامین کی گم گشتگی میں یوسف کی بازگشت کی جھلک دیکھ لی تھی اور یہ ان کی فراست نبوت کا کرشمہ تھا، اسی لیے فرمایا (عسی اللہ ان یاتینی بھم جمیعا) اور یہ قرب و صال کے تصور کا نتیجہ تھا کہ درد فراق کی شدتیں بڑھ گئیں اور بے اختیار (یاسفی علی یوسف) کی صدا نکل گئی۔ اور اسی لیے آخر میں اشارہ کیا کہ (انی اعلم من اللہ ما لا تعلمون)