سورة یوسف - آیت 58

وَجَاءَ إِخْوَةُ يُوسُفَ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنكِرُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

(کچھ عرصہ بعد) یوسف کے بھائی مصر آئے اور یوسف کے پاس حاضر [٥٧] ہوئے۔ یوسف نے تو انھیں پہچان لیا مگر وہ انھیں نہ پہچان سکے

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(ح) حضرت یوسف انہیں دیکھتے ہی پہچان گئے، لیک وہ کیونکر پہچان سکتے تھے، اول تو یوسف جب گھر سے جدا ہوئے سترہ برس کے لڑکے تھے اور اب چالیس کے لگ بھگ عمر تھی، پھر اس بات کا کسے گمان ہوسکتا تھا کہ چند سکوں کا بکا ہوا، غلام مصر کا حکمراں ہوگا؟ حضرت یوسف نے جب انہیں دیکھا تو باپ کی اور اپنے ماں جائے بھائی بنیامین کی صورتیں سامنے آگئیں، ان سے کھود کھود کر گھر کے حالات پوچھے اور چلتے وقت کہا۔ تمہارے یہاں قحط چھایا ہوا ہے، تم غلہ لینے پھر آؤ گے، لیکن یاد رکھو، اب کے میں غلہ جبھی دوں گا کہ اپنے بھائی بنیامین کو بھی ساتھ لاؤ۔ (ط) تورات میں ہے کہ یہ صورت اس طرح پیش آئی کہ یوسف نے انہیں جاسوس کہا تھا جب انہوں نے اپنی بریت میں اپنے گھرانے کے حالات سنائے تو ان کی بات پکڑلی اور کہا، تم کہتے ہو اور تمہارا ایک بھائی اور بھی ہے؟ اچھا اسے بھی اپنے ساتھ لاؤ تاکہ تمہارے بیان کی تصدیق ہوجائے اور اس وقت تک کے لیے ایک آدمی یہاں چھوڑ جاؤ۔ (پیدائش : ١٠: ٤٢) معلوم ہوتا ہے ان لوگوں پر جاسوسی کا شبہ ضرور کیا گیا تھا اگرچہ خود حضرت یوسف کی طرف سے نہ ہوا ہو، اسی لیے حضرت یعقوب جب مجبور ہوئے کہ بنیامین کو ان کے ساتھ بھیج دیں تو نصیحت کی کہ ایک دروازہ سے شہر میں داخل نہ ہونا کہ کنعانیوں کا ایک پورا جتھا دیکھ کر مصریوں کو شبہ ہوگا، الگ الگ دروازوں سے ایک ایک دو دو کر کے داخل ہونا۔ نیز فرمایا : (ان الحکم الا للہ) اصلی فرماں روائی تو اللہ کے لیے ہے، وہ نہ چاہے تو مصر کا حکمراں کیا کرسکتا ہے؟ پس جو کچھ بھروسہ ہے اسی پر ہے، البتہ اپنی طرف سے تدبیر و احتیاط ضروری کرنی چاہے، لیکن جو کچھ پیش آنے والا تھا وہ دوسرا ہی معاملہ تھا، جاسوسی کی بنا پر نہیں بلکہ ایک دوسری مصلحت کی بنا پر بنیامین کو روک لیا گیا اور جس بات کی احتیاط کی تھی وہی پیش آگئی، یہی وجہ ہے کہ آیت (٦٨) میں فرمایا۔ یہ احتیاط کچھ کام نہ دے سکی، ہاں حضرت یعقوبب نے ایک خطرہ محسوس کیا تھا سو اپنی جگہ اس کی پیش بندی کرلی، پھر ان کے علم و دانش مندی کا بھی اظہار کردیا، تاکہ واضح ہوجائے، انہوں نے جو احتیاط کی تھی وہ گو کام نہ دے سکی، لیکن یہ قصور علم کی وجہ سے نہیں ہوا، علم کا مقتضا تو یہی تھا کہ تدبیر و احتیاط میں کمی نہ کرتے اور پھر سب کچھ اللہ پر چھوڑ دیتے جیسا کہ فی الحقیقت انہوں نے کیا۔ (ی) بہرحال بنیامین کو لے کر جب دوبارہ گئے تو حضرت یوسف نے اس پر اپنی حقیقت ظاہر کردی اور چونکہ جانتے تھے سوتیلے بھائی ضرور اس کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہوں گے اس لیے کہا : اب دن پھرنے والے ہیں اس لیے آزردہ خاطر نہ ہو۔