سورة یوسف - آیت 30

وَقَالَ نِسْوَةٌ فِي الْمَدِينَةِ امْرَأَتُ الْعَزِيزِ تُرَاوِدُ فَتَاهَا عَن نَّفْسِهِ ۖ قَدْ شَغَفَهَا حُبًّا ۖ إِنَّا لَنَرَاهَا فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور شہر کی عورتیں آپس میں چرچا کرنے لگیں کہ عزیزمصر کی بیوی (زلیخا) اپنے نوجوان غلام کو اپنی طرف ورغلانا چاہتی ہے اور اس کی محبت اس کے دل میں گھر کرچکی ہے۔ ہم تو اسے واضح طور پر گمراہی (محبت) میں مبتلا دیکھ رہی ہیں

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

آیت (٣٠) میں جس واقعہ کا ذکر کیا ہے، یہ حضرت یوسف کے جمال سیرت کا ایک دوسرا مظاہرہ ہے اور پہلے سے بھی زیادہ عظیم ہے، ضروری تشریح آخری نوٹ میں ملے گی۔ ضمنا یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ اس زمانہ کی مصری معاشرت کس درجہ شائستہ ہوچکی تھی؟ ضیافت کی مجلسیں خاص طور پر آراستہ کی جاتی تھیں۔ نشست کے لیے مسندیں لگائی جاتی تھیں کھانے کے لیے ہر شخص کے سامنے چھری رکھی جاتی تھی، مسندوں کے اہتمام کا حال اس سے معلوم ہوگیا کہ (واعتدت لھن متکا) مصر کے آثار قدیمہ اور یونانی مورخوں کی شہادت سے جو حالات روشنی میں آئے ہیں ان سے بھی اس متمدن معاشرت کی تصدیق ہوتی ہے۔ خصوصا ان نقوش سے جن میں امراء کی مجلسوں کا مرقع دکھایا گیا ہے اور جو قرآن کے ان اشارات کی پوری تفسیر ہیں۔