وَقُل لِّلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ اعْمَلُوا عَلَىٰ مَكَانَتِكُمْ إِنَّا عَامِلُونَ
اور جو لوگ ایمان نہیں لائے آپ ان سے کہئے کہ تم اپنے طریقہ پر عمل کرتے جاؤ۔ ہم بھی عمل کر رہے ہیں
سورت کی ابتدا جس اعلان حق سے ہوئی تھی اور پھر واضح کیا تھا کہ تمام پچھلی دعوتوں کا بھی یہی اعلان رہ چکا ہے اسی پر اب سورت ختم ہوتی ہے۔ چنانچہ آخر کی تین آیتیں خاتمہ موعظت ہیں : (ا) منکروں سے وہی بات کہہ دو جو ہمیشہ کہی گئی ہے۔ یعنی تم اپنی جگہ کام کیے جاؤ، ہم اپنی جگہ کر رہے ہیں تم بھی نتیجہ کا انتظار کرو ہم بھی منتظر ہیں، نتیجہ فیصلہ کردے گا، جس طرح ہمیشہ کرچکا ہے۔ (ب) اللہ ہی جانتا ہے کہ پردہ غیب میں کیا چھپا ہے اور سارے کام اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ (ج) اور تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو کیا کرنا چاہیے؟ (فاعبدہ وتوکل علیہ) اس کی عبادت میں لگے رہو اور اس پر بھروسہ رکھو۔ قرآن کے قصص اور ان کا حجت و برہان ہونا : یہ سورت بھی من جملہ ان سورتوں کے ہے جن میں گزشتہ دعوتوں کے وقائع سے استشہاد کیا گیا ہے اور گو سورۃ اعراف کے ایک نوٹ میں اس طرف اشارات کیے جا چکے ہیں، لیکن ضروری ہے کہ یہاں مزید وضاحت کردی جائے تاکہ آئندہ جہاں کہیں یہ بات آئے ذہن فہم و تدبر کے لیے مستعد رہے۔ قرآن نے تذکیر و موعظت کے لیے جو باتیں بطور دلائل کے اختیار کی ہیں اور جنہیں وہ جابجا حجج، براہین، بینا اور بصائر سے تعبیر کرتا ہے اور ان میں ایک نمایاں استدلال ایام و وقائع کا استدلال ہے، اس نے جہاں کہیں گزشتہ قوموں کے حالات بیان کیے ہیں، وہاں یہ بات بھی واضح کردی ہے کہ اس بیان سے اس کا مقصود کیا ہے؟ جیسا کہ اسی سورت کی آیت (١٢٠) میں گزر چکا ہے۔ اور جب ہم اس پر غور کرتے ہیں معلوم ہوجاتا ہے کہ مقصود یہ نہیں ہے کہ تورات کی طرح دنیا کی تاریخ بیان کی جائے بلکہ کچھ باتیں ہیں جن کا وہ دلوں میں اذعان پیدا کرنا چاہتے ہیں اور یہ سرگزشتیں اس کے لیے دلیلیں ہیں، حجتیں ہیں، براہین ہیں۔ پس سمجھ لینا چاہیے کہ کیونکر یہ سرگزشتیں دلیلیں ہوئیں۔ بات بالکل صاف تھی کیونکہ خود قرآن نے کھول کھول کر ہر جگہ بتلا دی ہے لیکن منطقی استدلال کے انہماک نے مفسروں کو سمجھنے کی مہلت نہ دی۔ وحدت قوانین فطرت : اس سلسلے میں سب سے پہلے دو باتیں ذہن نشین کرلینی چاہیے۔ اولا، قرآن کہتا ہے کہ کائنات ہستی کے جس گوشہ پر بھی نظر ڈالو گے تمہیں ایک حقیقت ابھری ہوئی دکھائی دے گی، بشرطیکہ دیکھنے سے انکار نہ کرو، وہ کیا ہے؟ قوانین فطرت کی وحدت، یعنی یہاں ہر جگہ ایک ہی قانون ایک ہی طرح پر کام کر رہا ہے۔ کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جو اپنے قانون خلقت و فعل میں دوسروں سے ذرا بھی الگ ہو۔ بلاشبہ بھیس بہت سے ہوگئے ہیں اور نام بھی یکساں نہیں، مگر حقیقت ایک ہی ہے اور جونہی سامنے کے پردے ہٹاتے ہو، اصلیت کی بے لاگ وحدی آکھڑی ہوتی ہے۔ مثلا تم کہتے ہو کہ حیوان کے لیے موت و حیات ہے۔ پھولوں کے لیے کھلنا اور مرجھانا ہے۔ پتھروں کے لیے بننا اور پامال ہونا ہے، اجزا کے لیے ملنا اور بکھر جانا ہے، بھیس بہت سے ہوگئے مگر کیا صورتیں بھی بہت ہوئیں؟ نام کیئ ہوگئی مگر کیا حقیقت بھی متعدد ہوئی؟ وہی قانون جو حیوانات میں موت و حیات تھا، نباتات میں کھلنا اور مرجھانا ہوا، جمادات میں بننا اور پامال ہونا، اجزا میں ملنا اور بکھرنا، الفاظ بدلتے جاؤ، معنی نہیں بدل سکتے۔ عباراتنا شتی و حسنک واحد۔۔۔۔ وکل الی ذاک الجمال یشیر !!! وہ کہتا ہے جب کائنات ہستی کے ہر گوشہ میں وحدت قانون کی بنیادی اصل کام کر رہی ہے تو کیونکر ہوسکتا ہے کہ اعمال انسانی کا گوشہ اس سے باہر ہو؟ اور وہاں بھی کوئی قانون کام نہ کر رہا ہو؟ اور وہ وہی وار ویسا ہی نہ ہوجیسا تم گوشوں میں ہے؟ وہ کہتا ہے کہ یہ گوشہ بھی دوسرے گوشوں کے ساتھ جڑار ہوا ہے، ٹھیک اسی طرح جس طرح یہاں کا ہر گوشہ دوسرے گوشے سے مربوط ہے۔ یہاں بھی وہی قانون کام کر رہا ہے جو عالم مادی کے تمام گوشوں میں کار فرما ہے۔ اور یہاں کے بھی وہی احکام و نتائج ہیں جو دوسرے گوشوں میں نظر آرہے ہیں۔ مثلا اگر عالم مادی میں تم دیکھتے ہو کہ آگ کا خاصہ جلانا ہے، اور ایسا نہیں ہوسکتا کہ آگ روشن ہو اور اس کے شعلوں سے ٹھنڈک نکلے، تو تمہیں اس سے انکار نہیں کرنا چاہیے کہ یہاں بھی کوئی بات آگ کی طرح ہوسکتی ہے اور جب وہ ظہور میں آجائے تو اس سے گرمی ہی نکلے گی۔ ٹھنڈک نہیں نکل سکتی، یعنی مادیات کے خواص کی طرح معنویات کے بھی خواص ہیں اور خواص و نتائج کا ایک ہی عالمگیر قانون یکساں طور پر دونوں جگہ کام کر رہا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے تفسیر سورۃ فاتحہ اور مقدمہ دیکھنا چاہیے) ثانیا : وہ کہتا ہے جس طرح یہاں ہر بات کے لیے فطرت کے مقررہ قوانین ہوئے اسی طرح قوموں اور جماعتوں کی سعادت و شقاوت اور حیات و ممات کا بھی ایک قانون ہوا اور جس طرح فطرت کے تمام قوانین یکساں ہیں، عالمگیر ہیں، غیر مبدل ہیں، اسی طرح یہ قانون بھی ہمیشہ ایک ہی طرح رہا ہے، اور ہمیشہ ایک ہی طرح کے احکام و نتئاج ظاہر ہوئے ہیں۔ زمانوں اور قوموں کے اختلاف سے اس کی تاثیر مختلف نہیں ہوسکتی۔ جس طرح سنکھیا کا خاصہ ہلاکت ہی ہے۔ خواہ کسی ملک اور کسی عہد میں کھائی جائے اسی طرح اس قانون کے احکام و نتائج بھی یکساں ہی ہوں گے خواہ کسی ملک اور کسی عہد میں پیش آئیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ اب سے ہزار برس پہلے تو سنکھیا کا خاصہ ہلاکت رہا ہو اور اب زندگی ہوجائے۔ پس جو کچھ ماضی میں پیش آچکا ہے ضروری ہے کہ مستقبل میں بھی پیش آئے۔ اس میں کبھی تبدیلی نہیں ہوسکتی، کیونکہ فطرت کے قوانین میں تبدیلی نہیں۔ اس نے جابجا اس قانون کو سنت اللہ سے تعبیر کیا ہے : (سنۃ اللہ فی الذین خلوا من قبل ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا) جو لوگ تم سے پہلے گزر چکے ہیں ان کے لیے اللہ کی سنت یہی رہی ہے (یعنی اللہ کے قانون کا دستور یہی رہا ہے) اور اللہ سنت میں تم کبھی ردو بدل نہیں پاؤ گے۔ (فھل ینظرون الا سنت الاولین فلن تجد لسنت اللہ تبدیلا ولن تجد لسنت اللہ تحویلا) پھر یہ لوگ کس بات کی راہ تک رہے ہیں؟ کیا اس بات کی کہ جو کچھ اگلے لوگوں کے لیے سنت رہ چکی ہے ان کے لیے بھی ظہور میں آجائے؟ تو یاد رکھو، تم اللہ کی سنت کو کبھی بدلتا ہوا نہیں پاؤ گے اور نہ کبھی ایسا ہوسکتا ہے کہ اس کی سنت کے احکام پھیر دیئے جائیں۔ (سنۃ من قد ارسلنا قبلک من رسلنا ولا تجد لسنتنا تحویلا) (اے پیغمبر) تجھ سے پہلے جن رسولوں کو ہم نے بھیجا ہے ان کے لیے ہماری سنت یہی رہی ہے اور ہماری سنت کبھی ٹلنے والی نہیں۔ استقرا کا یقین فطری ہے : قرآن کا یہ استدلال فی الحقیقت طبیعت انسانی کا وجدانی اذعان ہے، انسان کی ذہنی فطرت کا مطالبہ کرو، تم دیکھو گے کہ وہ حوادث سے بالطبع متاثر ہوتی ہے اور اس کے اندر کوئی چیز ہے جو اسے بتلا دیتی ہے کہ یہاں ایک مرتبہ کا حادثہ ایک ہی مرتبہ کا حادچہ نہیں ہے، خواص و نتائج دائمی ہیں۔ یعنی جو بات یہاں ایک مرتبہ ظہور میں آتی ہے وہ ہمیشہ ظہور میں آئے گی یا ہمیشہ ظہور ظہور میں آسکتی ہے۔ اور جس چیز کا جو خاصہ ایک مرتبہ ظاہر ہوا وہی خاصہ ہمیشہ ظہور میں آئے گاْ چنانچہ بچوں کو دیکھ کس طرح یہ وجدانی علم ان کے اندر بول رہا ہے ؟ ایک بچہ پہلی مرتبہ آگ میں انگلی ڈالتا ہے اور انگلی جلنے لگی ہے، پھر جب کبھی آگ اس کے سامنے آتی ہے تو خودبخود ہاتھ کھینچ لیتا ہے، کیوں؟ اس لیے کہ اس کے اندر کوئی چیز ہے جو اسے بتلا دیتی ہے کہ جس چیز نے ایک مرتبہ جلایا وہ ہمیشہ جلائے گی۔ یہ اعتقاد کہ آگ ہمیشہ جلاتی ہے، اسے صرف اتنی بات سے حاصل ہوگیا کہ آگ نے ایک مرتبہ جلایا تھا۔ طبیعت انسانی کا یہی وجدانی تاثر ہے جس نے ہمارے ذہن میں استقرا کا اعتقاد پیدا کیا، یعنی جزئیات کا تجربہ کرنا اور اس کے ذریعہ سے کلمات تک پہنچنا، اب ہمارے تمام علوم و معارف کا سنگ بنیاد یہی ہے۔ بہرحال قرآن کہتا ہے اگر تم وجدانی طور پر یہ بات محسوس کرتے ہو کہ خواص و نتائج کا تسلسل و اجراء ایک حقیقت ہے۔ یعنی اگر ایک چیز سے بار بار ایک ہی طرح کا نتیجہ نکلا ہے تو یہ اس کا خاصہ ہے اور اس میں تبدیلی ممکن نہیں تو پھر تم کیسے انکار کردیتے ہو کہ اعمال انسانی کے لیے یہ حقیقت معطل ہوگئی اور یہاں ایسا ہونا ضروری نہیں؟ اگر تم کہتے ہو کہ فلاں بات سے ایسا نتیجہ ضرور نککلے گا کیونہ بار بار ایسا ہی ہوچکا ہے تو پھر اس بات سے کیوں انکار کردیتے ہو کہ فلاں قسم کے اعمال کا نتیجہ یقینا ہلاکت ہے کیونکہ بار بار ایسا ہی ہوچکا ہے ؟ چنانچہ یہی بات ہے کہ وہ جابجا کہتا ہے تم ہی دنیا میں پہلی قوم نہیں ہو، تم سے پہلے بھی بے شمار قومیں اسی زمین میں گزر چکی ہیں، ان کی بھی آبادیاں تھیں، قوتیں اور شوکتیں تھیں، سربہ فلک عمارتیں تھیں، فکر و عمل کی سرگرمیاں تھیں۔ پس دنیا کی سیر و کرو، گزری ہوئی سرگزشتیں سنو، مٹی ہوئی نشانیوں کا کھول لگاؤ اور پھر دیکھو سعادت و شقاوت کے قانون کا کیسا عمل درآمد رہ چکا ہے؟ اور اگر ہمیشہ ایسا ہی ہوچکا ہے تو کیا تم سمجھتے ہو خدا تمہارے لیے اپنا قانون ہستی معطل کردے گا؟ یا اس طرح بدل دے گا کہ جو چیز کل تک سنکھیا رہ چکی ہے تمہارے لیے شہد ہوجائے؟ (قد خلت من قبلکم سنن فسیروا فی الارض فانظروا کیف کان عاقبۃ المکذبین) تم سے پہلے بھی (دنیا میں خدا کے) احکام و قوانین کے نتائج گزر چکے ہیں۔ پس ملکوں کی سیر کرو، پھر دیکھو ان لوگوں کا انجام کیسا ہوا جنہوں نے خدا کی نشانیاں جھٹلائی تھیں؟ (اولم یسیروا فی الارض فینظروا کیف کان عاقبۃ الذین من قبلھم وکانوا اشد منھم قوۃ) کیا یہ لوگ ملکوں میں چلے پھرے نہیں کہ دیکھتے ان لوگوں کا کیسا انجام ہوچکا ہے جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں وار جو ان لوگوں سے قوت میں کہیں زیادہ تھے؟ قرآن کی موعظت کا ایک خاص دائرہ ہے اور وہ جو کچھ کہتا ہے اسی کے اندر رہ کر کہتا ہے، پس ضروری ہے کہ اس استدلال کو بھی اسی کے اندر رہ کر دیھیں، اس سے باہر جانے کی کوشش نہ کریں، تاہم ایک بات ایسی ہے جو بغیر کسی تکلیف کے خودبخود سامنے آجاتی ہے اور ہم اپنے ذہن کو اس طرف جانے سے روک نہیں سکتے۔ یعنی قرآن کے اس طرز استدلال نے ایک زیادہ عام حقیقت کی طرف بھی اشارہ کردیا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ تاریخ کا صحیح استعمال کیا ہونا چاہیے؟ قرآن کی ان تصریحات سے معلوم ہوگیا کہ گزشتہ کا مطالعہ اس لیے کرنا چاہیے کہ آئندہ کے لیے عبرت حاصل کی جائے، یعنی جو کچھ گزر چکا ہے وہ آئندہ کے لیے ذخیرہ بصیرت ہے اور ماضی کے آئینہ میں مستقبل کی صورت دیکھی جاسکتی ہے۔ یہ کہنا ضروری نہیں کہ اس باب میں علم و نظر کی کاوشیں جس قدر بھی سراغ لگا سکی ہیں وہ زیادہ سے زیادہ یہی ہے۔ تاریخ میں بن خلدون پہلا شخص تھا جس نے تاریخ کو اسی روشنی میں دیکھنا چاہا اور اب فلسفہ تاریخ کی ساری بنیادیں اسی اصل پر چنی گئی ہیں۔ البتہ اس وقت تک معاملہ ابتدائی حالت سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ اگر بڑھتا تو ہم تاریخ کی ہر داستان میں مستقبل کی ایک نئی داستان پڑھ لیا کرتے۔ (ج) اب یہ دو اصل سامنے رکھ کر قرآن کے ان تمام مقامات کا مطالعہ کرو جہاں گزشتہ ایام و وقائع کا ذکر کیا گیا ہے، تم دیکھو گے کہ ہر جگہ یہی استدلال کام کر رہا ہے اور جونہی یہ بات سامنے رکھ لی جائے تمام وجوہ روابط واضح ہوجاتے ہیں۔ البتہ ہر مقام پر ایک ہی طرح کا بیان نہیں ہے اور نہ ایک ہی پہلو پر زور دیا گیا ہے۔ کسی مقام پر شخصیتوں کا ذکر کیا گیا ہے، کیونکہ وہاں اسی کی ضرورت تھی، کہیں قوموں کا ذکر کیا ہے کیونکہ وہاں کا مقتضا یہی تھا، کہیں وقائع کی طرف اشارہ کیا ہے کیونکہ وہاں کے لیے اسی قدر کافی تھا، اور پھر کہیں ایسا ہے کہ سرگزشتیں ایک ہی مقام پر جمع کردی ہیں اور ان سب سے بحیثیت مجموعی استدلال کیا ہے، تاکہ استدلال کے تمام پہلو آشکارا ہوجائیں۔ سورۃ ہود اور استقراء تاریخی : چنانچہ یہ سورت بھی منجملہ ان سورتوں کے ہے جن میں آخری صورت اختیار کی گئی ہے اور اس لیے اس استدلال کے جامع و مفصل مقامات میں سے ہے۔ وہ کہتا ہے گزرے ہوئے عہدوں کی طرف مڑ کر دیکھو، تم دیکھو گے کہ دنیا کی کوئی آبادی ایسی نہیں ہے جہاں ایک خاص طرح کا معاملہ پیش نہ آیا ہو اور خاص طرح کے نتائج پیدا نہ ہوئے ہوں، ہمیشہ ایسا ہوا ہے کہ قوموں میں ایک خاص طرح کی شخصیتیں پیدا ہوئیں، ہمیشہ ایسا ہوا ہے کہ انہوں نے خاص طرح بلند کیں، ہمیشہ ایسا ہوا ہے کہ ان کے اور ان کی قوم کے درمیان خاص طرح کے معاملات پیش آئے اور پھر ہمیشہ ایسا ہوا ہے کہ ان کا خاتمہ ایک خاص طرح کے نتیجہ پر ضرور ہوا اور اس نتیجہ نے تمام قضیہ کا فیصلہ کردیا۔ تم یہ بھی دیکھو گے کہ یہ سارا معاملہ اپنی ساری باتوں میں کچھ اس طرح کا یکساں اور ہم رنگ واقع ہوا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی حقیقت ہے جو بار بار ابھرتی اور اپنے آپ کو دہراتی رہی ہے یا ایک ہی زنجیر ہے جس کی مختلف کڑیاں یکے بعد دیگرے نمایاں ہوئی ہیں اور اس کی کوئی کڑی دوسری کڑی سے الگ نہیں، پھر کیا یہ بات کہ ہمیشہ اور ہر جگہ ایک ہی طرح کی بات پیش آئی اور ایک ہی طرح کا نتیجہ نکلا، اس یقین کے لیے کافی نہیں کہ یہ ملکوں اور قوموں کی سعادت و شقاوت کا ایک الہی قانون ہے، اور چونکہ ہمیشہ کام کرتا رہا ہے، اس لیے اب بھی کام کرے گا؟ اب ان تمام سرگزشتوں پر نظر ڈالو جو اس سورت میں بیان کی گئی ہیں اور اعراف میں گزر چکی ہیں اور آئندہ سورتوں میں بھی آئیں گی، یہ حضرت نوح کی دعوت سے شروع ہوتی ہیں اور حضرت موسیٰ کے ذکر پر ختم کردی جاتی ہیں۔ غور کرو کس طرح ان تمام دعوتوں کے ظہور میں، اعلانات میں، تذکیر و موعظت میں، احوال و ظروف میں، ردو قبول میں، نوعیت و حیثیت میں اور پھر آخری نتیجہ میں کامل یکسانی پائی جاتی ہے؟ اور کس طرح ان کی ہم آہنگی کے تمام نقطے صاف صاف ابھرے ہوئے ہیں؟ ساتھ ہی کسی طرح قدم قدم پر بتلایا جارہا ہے کہ ہدایت وحی کے ظہور کے عام قوانین کیا کیا ہیں؟ اور کس طرح دعوت وحی کا ہر چہرہ اپنے خال و خط میں قطعی اور آشکارا نظر آرہا ہے کہ شک و اشتباہ کی پرچھائیں بھی اسے چھونے کی جرات نہیں کرسکتی؟ سورۃ اعراف کے ایک نوٹ میں اشارات گزر چکے ہیں، اور اس سورت میں ہر دعوت کے وقائع کا خلاصہ بالمقابل نوٹوں میں پڑھ چکے ہو۔ ان سب پر مکرر نظر ڈالو اور غور کرو، جتنے رسول پیدا ہوئے وہ کیسے وقتوں میں پیدا ہوئے؟ اور کن لوگوں میں پیدا ہوئے؟ ان کی پکار کیا تھی؟ اور پکار کی نوعیت کیا تھی؟ ان کی دلیلیں کیا تھیں جن پر انہوں نے زور دیا؟ ان کا طریق کار کیا تھا جس پر وہ برابر کاربند رہے؟ انہوں نے اپنے قدم جہاں ٹکائے تھے وہ جگہ کون سی تھی؟ اور سہارے کے لیے جس کی طرف ہاٹھ بڑھایا تھا وہ کون تھا؟ پھر ان میں اور ان کی قوموں میں جو معاملات پیش آئے وہ کس قسم کے تھے؟ اور ان معاملات میں ان کا جو قول و فعل رہا وہ کس قسم کا تھا ؟ تم دیکھو گے کہ ان ساری باتوں میں ہر رسول دوسرے رسول کی تصویر تھا اور ہر دعوت دسری دعوت کا عکس تھی، کسی بات میں بھی تم ایک کو دوسرے سے جدا نہیں کرسکتے، سب اسی حال میں پیدا ہوئے کہ دنیوی طاقتوں اور حکمرانیوں میں سے کچھ نہیں رکھتے تھے۔ سب کا ظہور ایسے ہی وقتوں میں ہوا جب خدا پرستی اور نیک عملی کی روشنی بجھ چکی تھی۔ سب انہی قوموں میں پیدا ہوئے جن قوموں کو انہوں نے مخاطب کیا تھا، سب کی زبانوں سے ایک ہی پکار نکلی۔ سب نے ایک ہی طرح پر لوگوں کو بلایا، سب نے کہا اللہ کی بدنگی کرو، اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، سب نے کہا ظلم و بدعملی سے باز آجاؤ۔ اس کا نتیجہ ہلاکت ہے، سب نے کہا، ہماری جدوجہد ادائے فرض ہے، مزدوری کی طلب نہیں، سب نے کہا ہمارے پاس علم ویقین ہے، ہم تمہیں ظن و جہل سے نجات دلانا چاہتے ہیں، سب نے کہا ہمارا دعوی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایمان و نیک عمل کے نتائج کی بشارت دینے والے ہیں۔ انکار و بدعملی کے نتائج سے متنبہ کردینے والے، ماننا نہ ماننا تمہارا کام ہے، سب نے کہا تمہارا بھروسہ اپنی طاقتوں پر ہے، ہمارا پروردگار عالم پر تم جو کرسکتے ہو کر دیکھو، ہم اپنے کام سے باز آنے والے نہیں، سب نے کہا، اگر مانتے نہیں تو کم از کم حق کے مقابلہ میں سرکشی کرنا چھوڑ دو، کیونکہ سرکشی کا نتیجہ عذاب ہے، اور پھر سب نے کہا کہ تمہاری راہ تمہارے لیے ہے، ہماری راہ ہمارے لیے فیصلہ اللہ کے ہاتھ ہے، ہم بھی انتظار کرتے ہیں، تم بھی انتظار کرو۔ پھر ان قوموں کی طرف نظر اٹھاؤ جن میں ان تمام دعوتوں کا ظہور ہوا تھا، کس طرح یہاں بھی ہر قوم اپنے طرز عمل میں ٹھیک ٹھیک دوسری قوم کی شبیہ ہے ؟ اور کس طرح گمراہی کا چہرہ ہمیشہ ایک ہی طرح کا رہا، جس طرح ہدایت کا چہرہ ایک ہی طرح کا رہا ہے؟ غور کرو، کوئی بات بھی ایسی دکھائی دیتی ہے جس میں ظلم و فساد کی ایک نمود، ظلم و فساد کی دوسری نمود سے ہم رنگ نہ رہی ہو؟ سب نے اپنی اپنی باری وہی سب کچھ کیا جو ان میں سے کسی ایک نے کیا تھا، سب نے دعوت سے انکار کیا، سب نے دعوت کی ہنسی اڑائی، سب نے دلیلوں سے منہ موڑا، سب نے روشنیوں سے آنکھیں بند کرلیں، سب سرکشی اور گھمنڈ کی چال چلے، سب نے جبر و تشدد سے راہ روکنی چاہی، سب نے موعظت و دلائل کا جواب ظلم و تعدی سے دیا، سب کی زبانوں سے ایک ہی طرح کی صدائیں نکلیں، سب کے اعراض و انکار کا مزاج ایک ہی طرح کا مزاج رہا، اور پھر سب کو غرور و طغیان نے آخر وقت تک اس کی مہلت نہ دی کہ روشنی و تاریکی میں امتیاز کرے۔ پھر اگر انہیں مانا تو کن لوگوں نے مانا اور کتنوں نے مانا؟ تو یہاں بھی ہر دعوت کا معاملہ دوسری دعوت کے معاملہ سے بالکل ہم آہنگ رہا ہے۔ ہمیشہ ایسا ہی ہوا کہ بے نواؤں اور درماندہ نے قبول کیا اور سرداروں اور رئیسوں نے مقاومت کی، ہمیشہ ایسا ہی ہوا کہ جنہوں نے مانا وہ تھوڑے تھے، جنہوں نے انکار کیا وہ بہت تھے۔ پھر دیکھو، نتیجہ بھی کس طرح ہمیشہ ایک ہی رہا اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اس ایک کے خلاف ہوا ہو؟ ہمیشہ خدا کے فیصلہ کا انتظار کیا گیا اور ہمیشہ فیصلہ یہی ہوا کہ مومنوں نے نجات پائی، سرکشوں کے لیے ہلاکت ہوئی، یہ گویا اس معاملہ کا ایک قدرتی خاصہ تھا اور خاصہ کبھی بدل نہیں سکتا۔ یہ آگ کے لیے گری تھی، برف کے لیے ٹھنڈک تھی، سنکھیا کے لیے ہلاکت تھی، اور آگ جب سلگے گی گرمی ہی نکلے گی۔ برف جب کبھی جمے گی ٹھنڈک ہی ہوگی۔ سنکھیا جب کبھی کھائی جائے گی ہلاک ہی لائے گی : (سنۃ اللہ فی الذین خلوا من قبل ولن تجد لسنتۃ اللہ تبدیلا) قرآن کے اس استدلال کی ہم نے جو کچھ تشریح کی ہے یہ کوئی دور کا مفسرانہ استنباط نہیں ہے بلکہ خود قرآن نے صاف صاف لفظوں میں یہ ساری باتیں واضح کردی ہیں۔ ضرورت صرف تدبر و بصیرت کی ہے، قرآن کے ان بے شمار مقامات کا مطالعہ کرو جہاں گزشتہ رسولوں یا گزشتہ قوموں کی الگ الگ سرگزشتیں نہیں بیان کیں، بلکہ محض اجمالی اشارہ کردیا ہے اور پھر یکے بعد دیگرے ان عبرتوں پر توجہ دلائی ہے جو ان سب کی سرگزشتوں سے مجموعی طور پر نکلتی ہیں۔ مثلا سورۃ ابراہیم کی آیت (٩) میں فرمایا کیا ان قوموں کی خبریں تم تک نہیں پہنچیں جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں؟ پھر ان قوموں کی طرف اشارہ کیا ہے قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود اور وہ قومیں جو ان کے بعد ظہور میں آئیں اور جن کا حال اللہ ہی کو معلوم ہے، پھر اس کے بعد ان سب کے ایام و وقائع کی متفقہ اور مشترکہ عبرتیں بیان کی ہیں، اور صاف طور پر واضح کردیا ہے کہ تمام رسولوں کی صدائیں ایک ہی طرح کی رہیں اور تمام قوموں کے انکار و سرکشی بھی ایک ہی رہا۔ پھر جو نتیجہ پیش اایا وہ بھی سب کے لیے یکساں تھا اور ایک ہی تھا (فاحی الیھم ربھم لنھلکن الظالمین۔ ولنسکننم الارض من بعدھم ذلک لمن خا ف مقامی و خاف وعید) ایام اللہ : عربی میں ایسے واقعات کو جو بڑے اہم اور فیصلہ کن ہوتے ہیں اور قوی روایات کی حیثیت حاصل کرلیتے ہیں یوں تعبیر کیا جاتا ہے کہ فلاں واقعہ کا دن۔ مثلا یوم بدر، یوم احد، یوم قادسیہ اور اسی سے قومی معرکوں کے لیے ایام کی تعبیر پیدا ہوگئی ہے۔ چونکہ فیصلہ نتائج کے یہ دن جو تمام قوموں کو پیش آئے اللہ کے قانون حق کے نفاذ کے دن تھے اور حق و باطل کی معرکہ آرائی تھی، اس لیے قرآن نے انہیں ایام اللہ سے تعبیر کیا ہے۔ (ولقد ارسلنا موسیٰ بایتنا ان اخرج قومک من الظلمت الی النور وذکرھم بایم اللہ ان فی ذلک لایت لکل صبار شکور) قصص قرآن و مبادی سبعہ : اس سورت میں بیان قصص کے بعد فرمایا ہے ( وجائک فی ھذہ الحق و موعظۃ و ذکری للمومنین) ان سرگزشتوں نے تم پر حقیقت کھول دی اور وہ سرتا پا موعظت و تذکیر ہیں، نیز بے شمار مقامات میں تصریح کی کہ ان سرگزشتوں میں حقیقت کی بڑی بڑی نشانیاں ہیں۔ بڑٰی بڑی دلیلیں ہیں، تو اب غور کرو ایام اللہ کے اس استدلال سے کس طرح حقائق وحی کی تمام مہمات واضح ہوجاتے ہیں َ؟ اور کس طرح ہر حقیقت کے لیے موعظت و تذکیر مل جاتی ہے؟ تشریح کا یہ محل نہیں، مقصود اشارات ہیں تاکہ تمہارے سامنے تدبر کی راہیں خودبخود کھل جائیں مثلا بنائے استدلال کی وحدت اور ان کا عالمگیر تسلسل ہے، تو اب غور کرو، یہ وحدت کس طرح ہر گوشہ میں علم و یقین کا اجالا پیدا کر رہی ہے؟ اولا : وحد انبعاث، یعنی معلوم ہوگیا، ایک خاص معاملہ کے لحاظ سے تمام ملکوں اور قوموں کی حالت یکساں رہی ہے کوئی ملک و قوم ہو لیکن سراغ ملتا ہے کہ وہاں کچھ لوگ ایسے ضرور پیدا ہوئے جنہوں نے ابنائے جنس کو ایک خاص طرح کی تعلیم دی۔ ثانیا : وحدت دعوت، یعنی یہ تعلیم اگرچہ مختلف وقتوں، مختلف ملکوں، مختلف پیرایوں، مختلف زبانوں میں دی گئی لیکن ان اختلافات سے تعلیم مختلف نہیں ہوگئی۔ وہ ہمیشہ ایک ہی رہی۔ گویا ایک ہی پیغام تھا جو کسی نے بہت سے پیام بروں کو دے کر بھیج دیا ہو، اور زبانیں بہت سی ہوگئی ہوں مگر بات ایک ہی رہی ہے۔ ثالثا : وحدت تذکیر و موعظت یعنی تمام دعوتوں کی صرف تعلیم ہی یکساں نہ رہی۔ بلکہ تزکیر و موعظت کے اصول بھی ہمیشہ ایک ہی رہے۔ رابعا : وحدت شؤن و وقائع، یعنی اگرچہ زمانے مختلف ہوئے، ملک مختلف ہوئے، قومیں مختلف ہوئیں، احوال و ظروف مختلف ہوئے، مگر جو معاملات پیش آئے وہ اپنی نوعیت میں ہمیشہ ایک ہی طرح کے ہوئے۔ خامسا : وحدت تصدیق و انکار۔ یعنی دعوت کے ماننے نہ ماننے کے لحاظ سے بھی حالت ہمیشہ یکساں رہی۔ سادسا : وحدت ہدایت و ضلالت فکر۔ یعنی ہمیشہ ماننے والوں کی فکری حالت بھی ایک ہی طرح کی رہی اور نہ ماننے والوں کی فکری حالت بھی ایک ہی طرح کی رہی، جنہوں نے مانا ہمیشہ ایک ہی طرح پر مانا، جنہوں نے نہ مانا ایک ہی طرح پر نہ مانا، حتی کہ تصدیق و یقین کی جتنی صدائیں اٹھیں ہمیشہ ایک ہی طرح کی اٹھیں اور انکار و شک کی جتنی باتیں کہی گئیں ہمیشہ ایک ہی طرح کی کہی گئیں۔ سابعا : وحدت ظہور نتائج، یعنی پھر نتیجہ بھی ہمیشہ ایک ہی نکلا، ایک سے دو نہ ہوا۔ قرآن کہتا ہے، جب صورت حال یہ ہے تو کیا ایسی باتیں اصلیت سے خالی ہوسکتی ہیں؟ کیا ان کی قدامت، ان کی عالمیگری، ان کا دائمی تسلسل، ان کا غیر منقطع اعادہ، ان کی بے داغ وحدت، ان کی فطری صداقت کا اعلان نہیں کر رہی۔ (ما لکم کیف تحکمون) پس معلوم ہوا یہاں کی تمام فطری اور عالمیگر حقیقتوں کی طرح ہدایت وحی کی بھی ایک حقیقت ہے، جو ہمیشہ ظہور میں آئی، ایمان اور عمل صالح کے قانون کی بھی ایک حقیقت ہے جس کی ہمیشہ تعلیم دی گئی، ہدایت اور ضلالت کی کشمکش کی بھی ایک حقیقت ہے جو ہمیشہ نمودار ہوئی۔ تصدیق رسل کے نتائج کی بھی ایک حقیقت ہے جو ہمیشہ ظہور میں آئی اور انکار و سرکشی کے نتائج بھی دنیا کی ایک ثابت شدہ حقیقت ہیں کیونکہ ان میں کبھی تغیر نہیں ہوا۔ قرآن نے صرف چند دعوتوں کا کیوں ذکر کیا؟ اس سلسلہ میں یہ بات پیش نظر رہیے کہ قرآن نے اگرچہ یہاں اور دیگر مقامات میں چند خاص خاص دعوتوں اور قوموں ہی کا ذکر کیا ہے، لیکن اس کا دعوی عام ہے اور اسی پر یہ استدلال مبنی ہے۔ اس نے جابجا یہ بات واضح کردی ہے کہ ہدایت وحی کا ظہور جمیعت بشری کا عالمگیر واقعہ ہے اور کوئی قوم نہیں جس میں اللہ کے کسی رسول کا ظہور نہ ہوا ہو۔ نیز یہ کہ بے شمار قومیں دنیا میں گزر چکی ہیں جن کا حال اللہ ہی کو معلوم ہے۔ چنانچہ سورۃ یونس کی آیت (٤٧) میں گزر چکا ہے۔ (ولکل امۃ رسول فاذا جاء رسولھم قضی بینھم بالقسط وھم لا یظلمون) اور دوسرے مقامات میں فرمایا : (انما انت منذر ولکل قوم ھاد) (ولقد بعثنا فی کل امۃ رسولا ان اعبدوا اللہ واجتنبوا الطاغوت) (انا ارسلنک بالحق بشیرا و نذیرا وان من امۃ الا خلا فیھا نذیر) (الم یاتکم نبوا الذین من قبلکم قوم نوح و عاد و ثمود والذین من بعدھم لا یعلمھم الا اللہ) لیکن ساتھ ہی اس نے یہ تصریح بھی کردی ہے کہ قرآن میں تمام رسولوں کا ذکر نہیں کیا گیا۔ صرف چند کا ذکر کیا گیا ہے : (ولقد ارسلنا رسلا من قبلک منھم من قصصنا علیک ومنھم من لم نقصص علیک) اور (اے پیغمبر) ہم نے تم سے پہلے کتنے ہی رسول مبعوث کیے، ان میں سے کچھ ایسے ہیں جن کے حالات تمہیں سنائے ہیں، اور کچھ ایسے ہیں جن کے حالات نہیں سنائے۔ یہ ظاہر ہے کہ قومیں بے شمار گزر چکی ہیں اور یہ بھی ظاہر ہے کہ حسب تصریح قرآن ہر قوم میں دعوت حق کا ظہور ہوا ہے۔ پس تسلیم کرنا پڑے گا کہ بے شمار قومیں اور بے شمار دعوتیں جن میں سے صرف چند ہی کا قرآن نے ذکر کیا، باقی کا نہیں کیا۔ قرآن نے ایسا کیوں کیا؟ تو اس کا سبب بالکل واضح ہے، قرآن کا مقصود ان سرگزشتوں کے بیان سے یہ نہیں تھا کہ تاریخ کی طرح تمام واقعات کا استقصاء کیا جائے۔ بلکہ صرف تذکیر و موعظت تھا، اور تذکیر و موعظت کے لیے اس قدر کافی تھا کہ چند دعوتوں اور قوموں کی سرگزشتیں بیان کردی جائیں اور باقی کے لیے کہہ دیا جائے کہ ان کا حال بھی انہی پر قیاس کرلو۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس بارے میں اس کا اسلوب بیان ہر جگہ عام ہے۔ جابجا اس طرح کی تعبیرات پائی جاتی ہیں کہ پھچلے قرنوں میں ایسا ہوا۔ پچھلی قوموں میں ایسا ہوا۔ پچھلی آبادیوں میں ایسا ہوا، پچھلے رسولوں کے ساتھ اس طرح کے معاملات پیش آئے، البتہ جہاں کہیں تخصیص کے ساتھ ذکر کیا ہے وہاں صرف چند قوموں ہی کی سرگزشتیں بیان کی ہیں۔ جس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ یہ چند سرگزشتیں پچھلی قوموں کے ایام و وقائع کا نمونہ سمجھی جائیں اور ان سے اندازہ کرلیا جائے کہ اس بارے میں تمام اقوام عالم کی روادادیں کیسی رہ چکی ہیں؟ البتہ کہا جاسکتا ہے کہ کیوں خصوصیت کے ساتھ ان چند قوموں ہی کا ذکر کیا گیا جو ایک خاص خطہ ارضی میں گزر چکی تھیں۔ دوسرے خطوں کی اقوام میں سے کسی کا ذکر نہیں کیا؟ تو اس کے وجوہ بھی بالکل واضح ہیں اگر تھوڑی سی وقت نظر کام میں لائی جائے، یہ ظاہر ہے کہ ایام و وقائع کے ذکر سے مقصود یعنی مقاصد کے لیے استشہاد تھا اور یہ استشہاد جب ہی موثر ہوسکتا تھا کہ جن ایام و وقائع کا ذکر کیا جائے ان کے وقوع سے مخاطب بے خبر نہ ہوں۔ کم از کم ان کی بھنک کانوں میں پڑچکی ہو۔ یا نہ پڑی ہو تو اپنے پاس آدمیوں سے حال پوچھ لے سکتے ہوں۔ ورنہ ظاہر ہے کہ لوگ کہہ دیتے پہلے ان وقائع کا وقوع ثابت کردو، پھر ان سے ہمیں عبرت دلانا، اور اس طرح عبرت و تذکیر کا سارا مقصد ہی فوت ہوجاتا، اب دیکھو قرآن نے جن ایام و وقائع کا وقوع ثابت کردو، پھر ان سے ہمیں عبرت دلانا، اور اس طرح عبرت کو تذکیر کا سارا مقصد ہی فوت ہوجاتا۔ اب دیکھو قرآن نے جن ایام و وقائع کا ذکر کیا ہے وہ تمام ترکن خطوں میں واقعے ہوئے تھے؟ یعنی ان کی جغرافیائی حدود کیا ہیں؟ یہ تمام وقائع یا تو خود عرب میں ہوئے یا سرزمین دجلہ و فرات میں یا پھر فلسطین اور مصر میں، اور یہ تمام خطے ایک دوسرے سے متصل تھے تجارتی قافلوں کی شاہراہوں سے باہمدگر پیوستہ آمد و رفت کے علائق کا قدیمی سلسلہ رکھتے تھے اور نسلی و لسانی تعلقات کے لحاظ سے بھی ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے تھے جیسا کہ آگے چل کر تمہیں معلوم ہوگا۔ پس قرآن نے انہی خطوں کا ذکر کیا جو فی الحقیقت تاریخ اقوام کا ایک ہی وسیع خطہ رہ چکا ہے دوسرے خطوں سے تعرض نہیں کیا کیونکہ مخاطبین کے لیے ان خطوں کا ذکر ان کی شب و روز کی باتوں کا ذکر تھا اور وہ جھٹلانے کی جرات نہیں کرسکتے تھے۔ عرب خود ان کا ملک تھا، عراق سے ان کے تعلقات تھے، فلسطین کے کھنڈروں پر ہر سال گزرتے رہتے، مصر ان کے تجارتی قافلوں کی منڈی تھی، ان ملکوں کا نام سننا گویا اپنے چاروں طرف نظر اٹھا کر دیکھ لینا تھا۔ پھر جن قوموں کا ذکر کیا گیا ان کے ناموں سے بھی وہ ناآشنا نہ تھے، قوم تبع اور اصحاب اخدود یمن سے تعلق رکھتے تھے اور یمن عرب میں ہے، عاد اور ثمود کی بستیاں بھی عرب ہی کے حدود میں تھیں، قبیلہ مدین بالکل عرب کے پڑوس میں تھا، قوم لوط کے کھنڈر ان میں سے سینکڑوں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے، سرزمین دجلہ و فرات کی قوموں اور ان کی روایتوں سے بھی نا آشنا نہیں ہوسکتے تھے۔ مصر میں گو مصر کے فرعون اب نہیں رہے تھے، لیکن مصر میں برابر آتے جاتے رہتے تھے، فراعنہ کے نام ان کے لیے اجنبی نام نہیں ہوسکتے تھے۔ علاوہ بریں یہودی اور عیسسائی خود ان کے اندر سے بسے ہوئے تھے، انبیائے بنی اسرائیل کے نام ان لوگوں کی زبانوں پر تھے، تفصیلات ربیوں اور راہبوں کو معلوم تھیں، یہ ان سے پوچھ سکتے تھے اور پوچھا کرتے تھے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ایما و وقائع کے بیان و استدلال میں جابجا اس طرح کا اسلوب اختیار کیا ہے جیسے ایک جانی بوجھی ہوئی بات کی طرف اشارہ کیا جائے۔ مثلا جابجا فرمایا : (الم یاتکم نبو الذین من قبلکم) جو قومیں تم میں سے پہلے گزر چکی ہیں کیا تم تک ان کی خبریں نہیں پہنچ چکی ہیں؟ یا مثلا جابجا اس طرح کی تعبیرات پاؤ گے : (اولم یسیروا فی الارض فینظروا کیف کان عاقبۃ الذین من قبلھم) کیا یہ لوگ ملک میں چلے پھرے نہیں کہ دیکھتے پچھلی قوموں کا کیا انجام ہوچکا ہے؟ کیونکہ واقعہ ہوچکا ہے؟ کیونکہ واقعہ یہ تھا کہ وہ برابر چلتے پھرتے رہتے تھے، یعنی ہر موسم میں تجارت کے لیے نکلتے تھے اور اثنائے سفر میں کتنی ہی اجڑی ہوئی بستیاں، مٹتے ہوئے نشان اور سنسان کھنڈر ان کی نظروں سے گزرتے تھے بلکہ بسا اوقات انہی میں منزل کرتے اور انہی کے سایوں میں دوپہر کاٹتے تھے اور پھر جابجا اس طرح کی بھی تصریحات ہیں کہ یہ مقامات تم سے دور نہیں کہ بعد کی وجہ سے بالکل بے خبر رہے ہو۔ اور یہ بھی کہا ہے کہ کیا علمائے بنی اسرائیل سے یہ سرگزشتیں نہیں سنیں؟ اور اگر بے خبر ہو تو علم والوں سے یعنی علمائے اہل کتاب سے دریافت کرلو جو تم ہی میں بسے ہوئے ہیں ْ اور پھر بعض مقامات میں عرب کے حوالی و اطراف کی تصریح بھی کردی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیان وقائع میں قصدا یہ بات ملحوظ رکھی گئی ہے کہ سرزمین عرب اور اس کے اطراف و جوانب ہی کے وقائع ہوں۔ مثلا سورۃ احقاف کی آیت (٢٧) میں قوم عاد کے ذکر کے بعد فرمایا (ولقد اھلکنا ما حولکم من القری وصرفنا الایت لعلھم یرجعون) البتہ یہ ظاہر و معلوم ہے کہ ان واقعات کی تفصیلات سے لوگ نا آشنا تھے، اور بعض وقائع ایسے تھے جن کی صرف کانوں میں بھنک پڑچکی تھی لیکن کوئی نہیں جانتا تھا کہ معاملہ کس طرح پیش آیا اور صحیح سرگزشت کیا ہے؟ نہ صرف عرب میں بلکہ ان خطوں میں بھی جہاں وہ پیش آئے تھے، جن وقائع کا ذکر تورات میں موجود تھا ان کی بھی بعض حقیقتیں محرف ہوگئی تھیں، یا بھلا دی گئی تھیں اور خود اہل کتاب کو بھی خبر نہ تھی کہ اصلیت کیا رہ چکی ہےْ پس قرآن نے ان کی حقیقت ٹھیک ٹھیک واضح کردی، ہر معاملہ اپنی اصلی صورت میں نمایاں ہوگیا، بعض وقائع کی نسبت تصریح کردی کہ اس سے باشندگان عرب بالکل نا آشنا تھے، یعنی نام تو سن لیا تھا لیکن اس کی یہ تفصیلات اور جزئیات کسی کو معلوم نہ تھیں، مثلا اسی سورت میں حضرت نوح کی سرگزشت بیان کر کے آیت (٤٩) میں تصریح کردی کہ یہ باتیں نہ تو تجھے معلوم تھیں نہ تیری قوم کو۔ جدید اثری تحقیقات اور اقوام متذکرہ قرآن : پھر فہم و تدبر کا ایک اور نقطہ بھی ہے اور اس سطرف بھی اشارہ کردینا ضروری ہے، قرآن نے جن خطوں کی اقوام کا ذکر کیا ہے دنیا کو ان کی قدیم تاریخ بہت کم معلوم تھی، اور خود عرب اور عربی نسل کی ابتدائی سرگزشتیں بھی پردہ خفا میں مستور تھیں، لیکن اٹھارویں صدی سے آثار قدیمہ کی تحقیقات کا نیا سلسلہ شروع ہوا اور پھر انیسویں صدی میں نئے نئے پردے اٹھے اور اب بیسویں صدی کے اثری انکشافات روز بروز ایک خاص رخ پر جارہے ہیں، ان سب سے عرب، عراق، فلسطین، شام اور مصر کی قدیم قوموں اور تمدنوں کے جو حالات منکشف ہوئے ہیں انہوں نے ان خطوں کی قدیم تاریخ کو بالکل ایک نئی شکل دے دی ہے اور روز بروز نئی نئی حقیقتیں ابھرتی جاتی ہیں، سب سے زیادہ عجیب بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ عربی نسل اور عربی زبان کے صرف اتنے ہی معنی نہیں ہیں جتنے آج تک سمجھے گئے ہیں بلکہ یہ قوموں اور نسلوں کی ایک نہایت قدیم اور وسیع داستان ہے اور وہ دنیا کے ابتدائی تمدنوں میں عظیم الشان حصہ لے چکے ہیں۔ ان تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر عربی زبان اور اس کی ابتدائی شکلوں کے بولنے والوں کو ایک خاص نسل تسلیم کرلیا جائے تو یہ دراصل بہت سے گروہوں اور قبیلوں کا ایک مجموعہ تھا اور عرب، فلسطین، شام، مصر اور عراق کے خطوں میں پھیلا ہوا تھا۔ اس نے دنیا کے ابتدائی تمدن کی تعمیر میں بڑے بڑے حصے لیے، ان ملکوں کی وہ تمام قدیم قومیں جو آج تک ایک دوسرے سے بالکل الگ سمجھی جاتی تھیں مثلا اشوری، سریانی، فینقی، مصری، آرامی وغیرھم، فی الحقیقت الگ نہ تھیں اور عربی زبان کا ابتدائی مواد اور عربی رسم الخط کے ابتدائی نقوش ان سب میں مشترک تھے، حتی کہ انہی گروہوں نے مصر کے تخت عظمت و جبروت پر عرصہ تک شہنشاہی کی اور اپنی زبان وقت کی تمام متمدن قوموں کو مستعار دے دی، چنانچہ دارا کے کتبوں اور مصر کے ہیلو غلیفی نقوش میں عربی الفاظ ااج تک پڑھے جاسکتے ہیں اور یہ بات تو ایک تاریخی حقیقت کی طرح مان لی گئی ہے کہ یونانیوں نے فن کتابت کا پہلا سبق انہی اقوام سے حاصل کیا تھا۔ کون کہہ سکتا ہے کہ آئندہ اس سلسلہ میں کیا کیا انکشافات ہونے والے ہیں؟ تاہم جس قدر انکشافات ہوچکے ہیں ان سے ایک بات واضح ہوگئی ہے۔ یعنی ایک زمانہ میں یہ تمام خطے ایک خاص نسل کے عروج و انشعاب کے مختلف میدان تھے اور یہی نسل عربی قبائل کی ابتدائی نسل تھی، پس اگر قرآن نے صرف انہی خطوں کی اقوام کا ذکر کیا ہے، کوئی دوسری قوم اس دائرہ میں داخل ہیں ہوسکی ہے تو بہت ممکن ہے اس کی علت اس سے کہیں زیادہ گہری ہو جس قدر اس وقت تک ہم سمجھتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں چار باتیں نمایاں طور پر سامنے آجاتی ہیں : اولاد : جن اقوام کا ذکر کیا گیا ہے ان کی خصوصیت صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ بعض سرزمین حجاز کے قرب و جوار میں گزری تھیں اور بعض سے اہل کتاب واقف تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ کوئی گہری بات ہے، کیونکہ معلوم ہوتا ہے یہ تمام قومیں اسلا ایک ہی نسلی حلقہ کی ہیں، حتی کہ اگر مصریوں کا ذکر کیا گیا ہے تو مصری بھی اس میں داخل ہیں۔ ثانیا : ان انکشافات کی روشنی میں ایک اور مسئلہ بھی بالکل صاف ہوجاتا ہے قرآن نے جہاں کہیں ترتیب ظہور کے ساتھ دعوتوں کا ذکر کیا ہے وہاں قوم نوح کے بعد قوم عاد اور عاد کے بعد قوم ثمود نمایاں ہوئی ہیں اور ان تینوں قوموں کو ایک دوسرے کا جانشین کہا ہےْ چنانچہ سورۃ اعراف کی آیت (٦٩) میں ہے کہ حضرت ہود نے اپنی قوم سے کہا خدا کی یہ نعمت یاد کرو کہ اس نے تمہیں قوم نوح کے بعد اس کا جانشین بنایا، اور آیت (٧٤) میں ہے کہ اسی طرح حضرت صالح نے فرمایا۔ تم قوم عاد کے بعد اس کے جانشین بنائے گئے۔ چونکہ ان تینوں قوموں کا جغرافیائی محل ایک دوسرے سے الگ تھا اس لیے یہ بات واضح نہیں ہوتی تھی کہ اس خطاب کا صحیح مطلب کیا ہے؟ لیکن اب بالکل واضح ہوگئی اور ان توجیہوں کی ضرورت نہ رہی جو مفسرین نے اختیار کی ہیں۔ ثالثا : اس سوال پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ قرآن نے ہر جگہ یہ تذکرہ حضرت نوح ہی سے کیوں شروع کیا ہے؟ اس کے متعدد وجوہ سامنے آتے تھے لیکن ان انکشافات کی روشنی میں ایک نیا پہلو واضح کردیا ہے، یعنی حضرت نوح کی دعوت غالبا اس قدمین نسل میں پہلی دعوت تھی، اور چونکہ پہلی دعوت تھی اس لیے ناگزیر تھا کہ اس کی دعوتوں کا تذکرہ اسی سے شروع ہو۔ رابعا : تورات کی بنا پر سامی نسلوں اور زبانوں کی تقسیم کی گئی تھی اور جو اٹھارویں اور انیسویں صدی کے علمائے انساب والسنہ کے نزدیک بنیادی تقسیم رہی ہے اب متزلزل ہورہی ہے اور معلوم ہوتا ہے از سر نو نئی تقسی میں کرنی پڑیں گی۔ (ولتعلمن نباہ بعد حین) اس سورت کی تصریحات میں ایک معاملہ اور تشریح طلب رہ گیا ہے اور ضروری ہے کہ اس طرف بھی اشارہ کردیا جائے۔ قرآن نے جس طرح دوسری قوموں کے عذاب کا ذکر کیا ہے اسی طرح قوم نوح کے عذاب کا بھی ذکر کیا ہے اور اگر دوسری قوموں کا عذاب صرف انہی قوموں کے لیے تھا تو کوئی وجہ نہیں کہ قوم نوح کا عذاب یعنی طوفان عالمگیر تصور کیا جائے لیکن چونکہ تورات کی کتاب پیدائش میں اس طرح کی تصریحات موجود ہیں کہ طوفان عام تھا اور یہودیوں اور عیسائیوں کا ایسا ہی اعتقاد رہا ہے اس لیے مسلمانوں میں بھی یہ خیال پھیل گیا اور اس طرح کی تفسیر کی جانے لگی جو طوفان کے عموم پر مبنی تھی۔ بہرحال دو باتیں یاد رکھی چاہیں۔ ایک یہ قرآن میں کوئی بات ایسی نہیں ہے جس سے طوفان نوح عام ثابت ہوتا ہو، دوسری یہ کہ تورات کے بقیہ اجزا کے بارے میں کچھ ہی کہا جائے لیکن موجودہ زمانہ میں علم و تحقیق کا قطعی فیصلہ ہوچکا ہے کہ کتاب پیدائش لائق اعتماد نہیں۔ خصوصا اس کا ابتدائی حصہ، تفصیل اس کی مقدمہ میں ملے گی۔ انیسویں صدی کی اثری تحقیقات اور وقائع بنی اسرائیل : انیسویں صدی کی اثری تحقیقات نے ایک نیا سوال بھی پیدا کردیا ہے، یعنی تورات اور قرآن میں حضرت یوسف اور حضرت موسیٰ کی جو سرگزشتیں بیان کی گئی ہیں مصر کے تاریخی آثار میں ان کا کوئی سراغ نہیں ملتا، حتی کہ بنی اسرائیل کے توطن مصر اور خروج کا پورا واقعہ اثربیات مصر کی تاریخ میں ایک غیر معلوم واقعہ ہے۔ دنیا کی کسی پرانی قوم نے اپنی تاریخ کی کتاب و حفاظت کا ایسا انتظام نہیں کیا جیسا کہ قدیم مصریوں نے کیا تھا۔ جس وقت تک پیرس (قدیم مصری کاغذ) ایجاد نہیں ہوا تھا، شاہی محلوں، مندروں اور مقبروں کی دیواروں پر ہر عہد کے حالات مسلسل نقش کیے جاتے رہے اور جب پیپرس رائج ہوگیا، تو باقاعدہ دفاتر مدون ہونے لگے، علاوہ بریں ہر پادشاہ اور امیر کی وفات کے بعد اس کی نعش حنوط (ممی) کر کے اس کے خاص مقبرہ میں رکھی جاتی تھی اور نقش کے ساتھ اس کی زندگی کے وقائع رکھ دیے جاتے تھے۔ اب یہ تمام آثار روشنی میں آگئے ہیں اور ان کی معلومات نے ایک مرتب تاریخ کی شکل اختیار کرلی ہے۔ ان معلومات نے ہمیں پانچ ہزار برس پیشتر کے واقعات تک پہنچا دیا ہے، بعد کے واقعات کے لیے یونانی نوشتے موجود ہیں، دونوں یکجا کردیے جائیں تو یہ تین ہزار سال قبل از مسیح سے لے کر عہد سکندر تک ایک مسلسل تاریخ ہے۔ اس تمام عرصے میں اکتیس شاہی خاندانوں نے مصر پر حکومت کی، آخری خاندان فارس کی شہنشاہی کا تھا جس کے بعد ٣٣٢ قبل از مسیح میں سکندر اعظم کا تسلط قائم ہوا، ان اکتیس خاندانوں کے اکثر افراد روشنی میں آگئے ہیں اور ان کے ناموں کی فہرستیں مرتب کرلی گئی ہیں۔ علمائے آثار کہتے ہیں کہ حضرت یوسف کا معاملہ ایک نہایت غیر معمولی نوعیت کا معاملہ تھا، پھر ان کے خاندان کا مصر آنا وار بس جانا اور حضرت موسیٰ کا ظہور وار فرعون سے مقابلہ تمام تر ایسے واقعات ہیں جو نہایت اہمیت رکھتے ہیں۔ ضروری تھا کہ آثار مصر میں ان کا ذکر آتا۔ لیکن کسی طرح کا بھی تزکرہ نہیں ملتا، تورات کی سنین کے مطابق حضرت یوسف کا زمانہ مصر کے ہیکس (عمالقہ) فرمانرواؤں کا زمانہ ہے اور حضرت موسیٰ کا زمانہ بیسیوں حکمراں خاندان کا زمانہ ہونا چاہیے جس میں رعمیس سوم سے لے کر عمیس یازدہم تک کے فراعنہ گزرے ہیں لیکن ان تمام پادشاہوں کے جس قدر حالات معلوم ہوئے ہیں ان میں کوئی واقعہ ایسا نہیں ملتا جو حضرت یوسف اور حضرت موسیٰ کی سرگزشتوں کی خبر دیتا ہو۔ اسی بنا پر بیسیویں صدیں کے علمائے تاریخ کا عام رجحان اس طرح ہے کہ دونوں واقعوں کی تاریخی حیثیت قابل تسلیم نہیں۔ لیکن کیا آثار مصر کا سکوت اس کے لیے کافی ہے کہ اسے تاریخ کی منفی شہادت تسلیم کرلیا جائے؟ اور کیا فی الحقیقت آثار مصر میں ان واقعات کے لیے کوئی روشنی نہیں؟ یہ ضروری سوالات ہیں جنہیں حل کرنا چاہیے، لیکن اس کا محل البیان ہے، ترجما القرآن نہیں۔