سورة یونس - آیت 42

وَمِنْهُم مَّن يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ ۚ أَفَأَنتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ وَلَوْ كَانُوا لَا يَعْقِلُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور ان میں کچھ ایسے ہیں جو آپ کی باتیں سنتے تو ہیں مگر کیا آپ بہروں کو سنا سکتے ہیں خواہ وہ کچھ بھی سمجھ نہ سکتے ہوں

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

آیت (٤٢) اور اس کے بعد کی آیات میں اسی حالت کی طرف اشارہ ہے جو جابجا قرآن میں بیان کی گئی ہے، یعنی جہل و فساد اور تعصب و تقلید کے جمود سے ایسی حالت کا پیدا ہوجانا جو انسان کی عقل و بصیرت کو یک قلم معطل کردیتی ہے اور وہ اس قابل نہیں رہتا کہ سچائی اور حقیقت کا ادراک کرسکے۔ آیت (٤٤) میں فرمایا یہ حالت اس لیے پیش نہیں آتی کہ خدا نے کسی کو اس پر مجبور کردیا ہے۔ کیونکہ اگر ایسا ہو تو یہ ظلم ہے اور خدا کا یہ قانون نہیں کہ کسی جان پر ظلم ہو۔ یہ تو خود انسان ہی ہے جو خدا کی دی ہوئی روشنی ضائع کرکے اندھا بہرا بن جاتا ہے۔