سورة یونس - آیت 23

فَلَمَّا أَنجَاهُمْ إِذَا هُمْ يَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ۗ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا بَغْيُكُمْ عَلَىٰ أَنفُسِكُم ۖ مَّتَاعَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ ثُمَّ إِلَيْنَا مَرْجِعُكُمْ فَنُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

پھر جب اللہ نے انہیں بچا لیا تو فوراً حق سے منحرف ہو کر زمین میں بغاوت کرنے لگتے ہیں۔ لوگو! (دھیان سے سن لو) تمہاری سرکشی (کا وبال) تمہی پر پڑے گا۔ دنیا کی زندگی کے (چند روزہ) مزے لوٹ لو۔ پھر تمہیں ہمارے پاس ہی آنا ہے اور ہم تمہیں بتا دیں گے کہ تم کیا کرتے تھے۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

بغی کے معنی سرکشی کے ہیں اور اس میں ہر طرح کی سرکشی داخل ہے لیکن جب فی الارض کے ساتھ کہا جائے جیسا کہ آیت (٢٣) میں ہے تو اس سے مقصود وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں دنیا کی دولت و طاقت حاصل ہوجاتی ہے اور وہ اس کے گھمنڈ میں آکر ظلم و فساد کو اپنا شیوہ بنا لیتے ہیں۔ چونکہ اس سرکشی کا اصلی سرچشمہ دنیوی زندگی کے سروسامان کا غرور ہے اس لیے آیت (٢٤) میں فرمایا دنیا کی زندگی کی مثال تو بالکل ایسی ہے جیسے کاشت کاری کا معاملہ۔ آسمان سے پانی برستا ہے اور تمہارے کھیت لہلہانے لگتے ہیں، پھر جب وہ وقت آتا ہے کہ تم سمجھے ہو اب فصل پک گئی اور ہماری محنت کی کمائی ہمارے قبضہ میں ہے تو اچانک کوئی حادثہ پیش آجاتا ہے اور ساری فصل اس طرح تباہ ہوجاتی ہے گویا اس کا نام و نشان ہی نہیں تھا۔ یعنی دنیوی زندگی کی ساری کامرانیاں اور دلفریبیاں بے ثبات اور ہنگامی ہیں، تم یہاں کی کسی چیز اور حالت پر بھروسہ نہیں کرسکتے کہ یہ ضروری ایسی ہی رہے گی۔ اول تو زندگی ہی چند روزہ ہے پھر اس کا بھی ٹھکانا نہیں، پھر زندگی کے عیش و تمتع کی جتنی دلفریبیاں ہیں سب کا حال یہ ہے کہ صبح ہیں تو شام نہیں، شام کو تھیں تو صبح کو نہیں، ایسی حالت میں اس سے بڑھ کر غفلت و گمراہی کی اور کیا بات ہوسکتی ہے کہ انسان حق و راستی کی راہ چھوڑ کر سرکشی پر اتر آئے اور کسی چیز کے بھروسے پر؟ اس زندگی کے سروسامان اور اقتدار کے بھروسہ پر جسے چند لمحوں کے لیے بھی قطعی اور برقرار نہیں کہہ سکتا۔ لیکن انسانی غفلت کے عجائب کا یہی حال ہے، کوئی نہیں جو اس حقیقت سے بے خبر ہو، مگر کوئی نہیں جو اس غرور باطل کی سرگرانیوں سے اپنی نگہداشت کرسکے۔ یہی غفلت ہے جسے دین حق دور کرنا چاہتا ہے، وہ دنیا اور دنیا کی کامرانیوں سے نہیں روکتا، مگر ان کے غرور باطل اور بے اعتدلانہ انہماک کی راہیں بند کردینی چاہتا ہے، کیونکہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے سارے فتنوں کا اسلی سرچشمہ یہی غرور باطل ہے۔ قرآن نے ہر جگہ ایمان کو روشنی سے اور کفر کو تاریکی سے تشبیہ دی ہے۔ (اللہ ولی الذین امنوا یخرجھم من الظلمات الی النور) اور مومنوں کی پہچان یہ فرمائی ہے کہ ان کے لیے سرخروئی اور شادمانی ہوگی، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ (وجوہ یومئذ ناضرۃ الی ربھا ناظرۃ) (تعرف فی وجوھھم نضرۃ النعیم) (وجوہ یومئذ ناعمۃ لسعیھا راضیۃ) اور کفر کے لیے سیاہ روئی اور خواری ہے (وجوہ یومئذ باسرۃ تظن ان یفعل بھا فاقرۃ) (وجوہ یومئذ خاشعۃ عاملۃ ناصبۃ تصلی نارا حامیۃ) اور آل عمران کی آیت (١٠٦) میں گزر چکا ہے : (یوم تسود وجوہ وتبیض وجوہ) یہاں آیت ٢٦ اور ٢٧ میں بھی یہی بیان کیا ہے۔ خوشحالی و کامرانی سے چہروں کا چمک اٹھنا اور نامرادی و خواری سے سیاہ پڑجانا ایک طبعی حالت ہے۔ پس فرمایا قیامت کے دن ایک گروہ کے چہرے چمک اٹھیں گے، دوسرے کے سیاہ پڑجائیں گے، اور سیاہ چہروں کا یہ حال ہوگا گویا پردہ شب نے ان کے چہرے ڈھانپ لیے ہیں۔