سورة یونس - آیت 16

قُل لَّوْ شَاءَ اللَّهُ مَا تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلَا أَدْرَاكُم بِهِ ۖ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِّن قَبْلِهِ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

نیز آپ کہئے : ’’اگر اللہ چاہتا تو میں تمہارے سامنے یہ قرآن نہ پڑھتا اور نہ ہی اللہ تمہیں اس سے آگاہ کرتا۔ میں نے اس سے پہلے تمہارے درمیان [٢٥] اپنی عمر کا بڑا حصہ گزارا ہے۔ پھر بھی تم سوچتے نہیں‘‘

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

پھر آیت (١٦) میں صداقت نبوت کی ایک سب سے زیادہ واضح اور وجدانی دلیل بیان کی ہے، جس کی حقیقت افسوس ہے کہ مفسرین نے پوری طرح واضح نہیں کی، فرمایا ساری باتیں چھوڑ دو، صرف اسی بات پر غور کرو کہ میں تم میں کوئی نیا آدمی نہیں ہوں جس کے خصائل و حالات کی تمہیں خبر نہ ہو، تم ہی میں سے ہوں، اور اعلان وحی سے پہلے ایک پوری عمر تم میں بسر کرچکا ہوں، یعنی چالیس برس تک کی عمر کہ عمر انسانی کی پختگی کی کامل مدت ہے۔ اس تمام مدت میں میری زندگی تمہاری آنکھوں کے سامنے رہی، بتلاؤ اس تمام عرصہ میں کوئی ایک بات بھی تم نے سچائی اور امانت کے خلاف مجھ میں دیکھی؟ پھر اگر اس تمام مدت میں مجھ سے یہ نہ ہوسکا کہ کسی انسانی معاملہ میں جھوٹ بولوں تو کیا ایسا ہوکستا ہے کہ اب خدا پر بہتان باندھنے کے لیے تیار ہوجاؤں اور جھوٹ موٹ کہنے لگوں مجھ پر اس کا کلام نازل ہوتا ہے ؟ کیا اتنی سی موٹی بات بات بھی تم نہیں پاسکتے؟ تمام علمائے اخلاق و نفسیات متفق ہیں کہ انسان کی عمر میں ابتدائی چالیس برس کا زمانہ اس کے اخلاق و خصائل کے ابھرنے اور بننے کا اصل زمانہ ہوتا ہے۔ جو سانچا اس عرصہ میں بن گیا پھر بقیہ زندگی میں بدل نہیں سکتا۔ پس اگر ایک شخص چالیس برس کی عمر تک صادق و امین رہا ہے تو کیونکر ممکن ہے کہ اکتالیسویں برس میں قدم رکھتے ہی ایسا کذاب اور مفتری بن جائے کہ انسانوں ہی پر نہیں بلکہ فاطر السموات والارض پر افترا کرنے لگے؟ چنانچہ اس کے بعد فرمایا دو باتوں سے تم انکار نہیں کرسکتے : جو شخص اللہ پر افترا کرے اس سے بڑھ کر کوئی شریر نہیں، اور جو صادق کو جھٹلائے وہ بھی سب سے زیادہ شریر انسان ہے، اور شریر و مفتری کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اب صورت حال نے یہاں دونوں فریق پیدا کردیے ہیں، اگر میں مفتری علی اللہ ہوں تو مجھے ناکام و نامفراد ہونا پڑے گا، اگر تم سچائی کے مکذب ہو تو تمہیں اس کا خمیازہ بھگتنا ہے، فیصلہ اللہ کے ہاتھ ہے اور اس کا قانون ہے کہ مجرموں کو فلاح نہیں دیتا۔ چنانچہ اللہ کا فیصلہ صادر ہوگیا، جو مکذب تھے ان کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہا، جو صادق تھا اس کا کلمہ صدق آج تک قائم ہے اور قائم رہے گا، سورۃ انعام کی آیات (٢١) اور (١٤٤) اور سورۃ اعراف کی (٣٧) میں بھی یہی استشہاد گزر چکا ہے۔