سورة التوبہ - آیت 111

إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ۚ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ ۖ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ وَالْقُرْآنِ ۚ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ ۚ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُم بِهِ ۚ وَذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال جنت کے [١٢٤] بدلے خرید لیے ہیں۔ وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں مارتے بھی ہیں اور مرتے بھی ہیں۔ تورات، انجیل، اور قرآن سب کتابوں میں اللہ کے ذمہ یہ پختہ وعدہ ہے اور اللہ سے بڑھ کر اپنے وعدہ کو وفا کرنے والا اور کون ہوسکتا ہے؟ لہٰذا (اے مسلمانو)! تم نے جو سودا کیا ہے اس پر خوشیاں مناؤ اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

آیت (١١١) میں حب ایمانی کی حقیقت واضح کی ہے۔ فرمایا جو لوگ اللہ پر ایمان لائے تو ایمان کا معاملہ یوں سمجھو کہ انہوں نے اپنا سب کچھ اللہ کے ہاتھ بیچ ڈالا، جان بھی اور مال و متاع بھی۔ اب ان کی کوئی چیز ان کی نہیں رہی، اللہ اور اس کی سچائی کی ہوگئی۔ بندگان تو کہ در عشق خداوند انند۔۔۔۔ دو جہاں را بہ تمنائے تو بفروختہ اند اور پھر اللہ کی طرف سے اس کے معاوضہ میں کیا ہوا؟ یہ ہوا کہ نعیم ابدی کی کامرانیاں انہیں عطا فرمائیں۔ یہ گویا خریدوفروخت کا ایک معاملہ تھا جو اللہ میں اور عشاق حق میں طے پا گیا، اب نہ بیچنے والا اپنی متاع واپس لے سکتا ہے نہ خریدنے والا قیمت لوٹائے گا۔ اثامن بالنفس النفیسۃ ربھا۔۔۔۔۔ فلیس لھا فی الخلق کلھم ثمن اذا ذھبت نفسی بدنیا اصبتھا۔۔۔۔۔ فقد ذھبت منی وقد ذھب الثمن اور چونکہ مقصود اللہ کے لطف و کرم کا اظہار تھا اس لیے معاملہ کو اپنی طرف سے شروع کیا۔ نہ کہ بیچنے والوں کی طرف سے، یعنی یہ نہیں کہا کہ مومنوں نے بیچ ڈالی بلکہ کہا اللہ نے مومنوں سے خرید لی۔ گویا معاملہ کا طالب وہ تھا، حالانکہ ہر طرح کی طلب و احتیاج سے وہ منزہ ہے اور جو متاع اس نے قبول کی وہ بھی اسی کی تھی اور جو کچھ معاوضہ میں بخشا وہ بھی اس کے سوا اور کس کا ہوسکتا ہے؟