سورة البقرة - آیت 120

وَلَن تَرْضَىٰ عَنكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ ۗ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَىٰ ۗ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُم بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور یہود و نصاریٰ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس وقت تک کبھی خوش نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپ ان کے دین کی [١٤٤] پیروی نہ کرنے لگیں۔ آپ ان سے کہئے کہ ہدایت تو وہی ہے جو اللہ کی ہے۔ [١٤٥] اور اگر آپ علم آ جانے کے بعد ان کی خواہشات کی پیروی کریں گے تو آپ کو [١٤٦] اللہ سے بچانے والا کوئی حمایتی یا مددگار نہ ہوگا

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

یہ جتنی ملتیں الگ الگ بنا لی گئی ہیں یعنی الگ الگ گروہ بندیاں کرلی گئی ہیں مثلاً یہودیت اور مسیحیت تو یہ سب انسانی گمراہی کی بناوٹیں ہیں ہدایت کی راہ تو بس ہدایت کی راہ ہے۔ جو کوئی اس پر چلے گا، ہدایت یافتہ ہوگا۔ خواہ ان کی بنائی ہوئی ملتوں میں داخل ہو یا نہ ہو مذہبی گروہ بندی کا نتیجہ یہ ہے کہ حق پسندی اور حقیقت بینی کی جگہ محض گروہ پرستی کی روح کام کر رہی ہے۔ لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ ایک انسان کا اعتقاد اور عمل کیسا ہے؟ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ وہ ہماری گروہ بندی میں داخل ہے یا نہیں؟ جب لوگوں کی ذہنیت ایس ہوجائے تو ظاہر ہے کہ دلائل و حقائق کچھ کام نہیں دے سکتے۔ کتنی ہی سچی اور معقول بات کیوں نہ کی جائے۔ ان لوگوں کے لیے بیکار ہوگی۔ جب تک تم یہودیت اور نصرانیت کی گروہ بندی میں داخل نہ ہوجاؤ یہودی اور عیسائی تم سے خوش ہونے والے نہیں اگرچہ تمہارا اعتقاد اور عمل کتنا ہی اچھا اور معقول ہو اور خود ان کی مسلمہ تعلیمات کے ٹھیک ٹھیک مطابق ہی کیوں نہ ہو۔