وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ ۚ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ
اور (اے نبی وہ وقت یاد کرو) جب کافر آپ کے متعلق خفیہ تدبیریں سوچ رہے تھے کہ آپ کو قید کردیں، یا مار ڈالیں یا جلا وطن کردیں۔ وہ بھی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ بھی [٣١] تدبیر کر رہا تھا اور اللہ ہی سب سے اچھی تدبیر کرنے والا ہے
آیت (٣٠) پر غور کرو، انسان اپنے جہل و غفلت کی سرشاریوں میں کیا سوچتا ہے اور حکمت الہی کی مخفی تدبیروں کا فیصلہ کیا ہوتا ہے؟ جب ہجرت سے پہلے قریش مکہ نے یہ منصوبے باندھے تھے تو کیا ایک لمحہ کے لیے انہیں آنے والے نتائج کا گمان ہوسکتا تھا؟ مگر کس طرح خود انہی کے ظلم و عداوت نے ان کا سارا سروسامان کردیا؟ اگر ظلم نہ ہوتا تو ہجرت بھی نہ ہوتی اور اگر ہجرت نہ ہوتی تو وہ تمام نتائج بھی ظہور میں نہ آتے جو ہجرت سے ظہور آئے۔ ایسی ہی صورت حال قانون الہی کی مخفی تدبیر ہے جو انسانی ظلم و فساد کی ساری تدبیریں ملیا میٹ کردیتی ہے۔