يَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ رَبِّي ۖ لَا يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَا إِلَّا هُوَ ۚ ثَقُلَتْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً ۗ يَسْأَلُونَكَ كَأَنَّكَ حَفِيٌّ عَنْهَا ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ اللَّهِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ قیامت کب قائم ہوگی؟ آپ ان سے کہئے'': یہ بات تو میرا پروردگار ہی جانتا ہے۔ وہی اسے اس کے وقت پر ظاہر کرے گا اور یہ آسمانوں اور زمین کا بڑا بھاری [١٨٦] حادثہ ہوگا جو یکدم تم پر آن پڑے گا۔ لوگ آپ سے تو یوں پوچھتے ہیں جیسے آپ ہر وقت اس کی ٹوہ میں لگے ہوئے [١٨٧] ہیں۔ ان سے کہئے کہ اس کا علم اللہ ہی کو ہے مگر اکثر لوگ (اس حقیقت کو) نہیں جانتے
مشرکین مکہ انکار و تمسخر کی راہ سے پوچھتے تھے اگر سچ مچ کو قیامت آنے والی ہے تو کیوں نہیں بتلا دیتے کہ آئے گی؟ فرمایا وقت کا علم تو اللہ کو ہے۔ تمہارے لیے اس قدر جان لینا کافی ہے کہ جب آئے گی تو اچانک آجائے گی۔ ڈھنڈورا پیٹ کر نہیں آئے گی۔ ثقلت فی السموات والارض سے معلوم ہوا وہ اجرام سماویہ کا ایک عظیم حادثہ ہوگا۔ اس آیت اور اس کی ہم معنی آیات سے یہ بات بھی معلوم ہوگئ کہ قیامت کے آثار و مقدمات کے بارے میں جتنی باتیں مسلمانوں میں مشہور ہوگئی ہیں ان کا بڑا حصہ بے اصل ہے۔ کیونکہ اگر ایک واقعہ سے بہت پہلے اس کی ظاہر علامتیں یکے بعد دیگرے ظہور میں آنے والی ہوں اور ان کی خبر بھی دے دی گئی ہو تو اس واقعہ کا ہونا ناگہانی نہیں ہوسکتا۔ حالانکہ قرآن قطعی طور پر کہتا ہے کہ لوگ یکسر بے خبر ہوں گے اور قیامت اچانک نمودار ہوجائے گی۔