وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ ۖ لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا ۚ أُولَٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ
بہت سے ایسے جنّ اور انسان ہیں جنہیں ہم نے جہنم کے لیے ہی پیدا کیا ہے۔[١٧٩] ان کے دل تو ہیں مگر ان سے (حق کو) سمجھتے نہیں اور آنکھیں ہیں لیکن ان سے دیکھتے نہیں اور کان ہیں لیکن ان سے سنتے نہیں۔ ایسے لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے [١٨٠] اور یہی لوگ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں
قرآن نے جا بجا یہ حقیقت واضح کیے کہ ہدایت و سعادت کی راہ عقل و تفکر کی راہ ہے اور گمراہی و شقاوت کا سرچشمہ جہل و کوری اور حواس و تفکر کو بیکار کردینا ہے۔ جو لوگ خدا کی دی ہوئی عقل سے کام نہیں لیتے یا ہوائے نفس سے اس درجہ مغلوب ہوجاتے ہیں کہ ذہن و ادراک کی قوتیں بیکار ہوجاتی ہیں وہ کبھی ہدایت نہیں پاسکتے (مزید تفصیل کے لیے تفسیر فاتحہ دیکھین چاہیے) چنانچہ یہاں انسان کی دماغی شقاوت کی اس حالت کی طرف اشارہ کیا ہے جب بڑے بوڑھوں کے تقلیدی اثرات سے ہوائے نفس کے غلبہ سے یا ذاتی طمع و بغض سے وہ اس درجہ مغلوب ہوجاتا ہے کہ عقل و حواس کی ساری روشنیاں اس کے لیے بیکار ہوجاتی ہیں۔ قرآن کہتا ہے ایسا ہی گروہ جہنمی گروہ ہے۔ یہاں سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ معرفت حقیقت کی دو ہی راہیں ہیں : فکر اور نظر۔ فکر یہ کہ خدا کی دی ہوئی عقل سے کام لیں اور اپنے اندر سوچیں سمجھیں۔ نظر یہ کہ کارخانہ ہستی کے عجائب و دقائق کا مشاہدہ کریں اور اس سے بصیرت حاصل کریں۔ جو شخص ان دونوں باتوں سے محروم ہے وہ اندھا بہرا ہے، اور گمراہی سے لوٹنے والا نہیں۔