وَإِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ كَأَنَّهُ ظُلَّةٌ وَظَنُّوا أَنَّهُ وَاقِعٌ بِهِمْ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُم بِقُوَّةٍ وَاذْكُرُوا مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے ان پر پہاڑ کو اس طرح لا کھڑا کیا تھا گویا وہ سائبان تھا اور انہیں یقین ہو چلا تھا کہ وہ ان پر ابھی گرنے والا ہے (اس وقت ہم نے انہیں حکم دیا کہ) جو کتاب ہم نے تمہیں دی ہے اسے مضبوطی کے ساتھ [١٧٤] پکڑو اور جو کچھ اس میں لکھا ہے اسے یاد رکھو تاکہ تم پرہیزگار بن سکو
(١) عربی میں نتقنا کے معنی رفعان کے بھی ہوسکتے ہیں اور زلزلنا کے بھی۔ نتق السقاء اذا ھزہ و نفضہ لیخرج منہ الزبدہ۔ ہم نے دوسرے معنی کو ترجیح دی ہے۔ چونکہ آیت (١٧١) میں اس عہد کا ذکر کیا تھا جو دین کے اتباع کا بنی اسرائیل سے لیا تھا اس لیے یہاں واضح کردیا گیا کہ پیغمبروں کی ہدایت کوئی نیا پیام انسان کو نہیں دیتی اور وہ اسی اعتقاد کی تجدید کرتی ہے جو اول دن سے فطرت انسانی میں ودیعت کردیا گیا ہے۔ پچھلی دعوتوں کا ذکر ختم ہوگیا۔ اب یہاں یہ حقیقت واضح کی ہے کہ جس طرح پچھلے عہدوں کی مفسد جماعتوں نے آخر تک سچائی کا مقابلہ کیا اسی طرح عرب کے مفسدین بھی کر رہے ہیں اور کبھی ایمان لانے والے نہیں۔ پس ان کی شرارتوں سے پریشان خاطر نہ ہو۔ نتیجہ کا انتظار کرو۔