وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُوا يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا ۖ وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنَىٰ عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ بِمَا صَبَرُوا ۖ وَدَمَّرْنَا مَا كَانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهُ وَمَا كَانُوا يَعْرِشُونَ
پھر ہم نے ان کا وارث ان لوگوں کو بنایا جو کمزور سمجھے [١٣٢] جاتے تھے اور اس سر زمین کا (بھی) وارث بنایا جس کے مشرق و مغرب میں ہم نے برکت رکھی [١٣٣] ہوئی ہے اور بنی اسرائیل کے حق میں آپ کے پروردگار کا اچھا وعدہ پورا ہوگیا کیونکہ انہوں نے صبر کیا تھا اور فرعون اور اس کی قوم جو کچھ عمارتیں بناتے اور (انگوروں کے باغ) بیلوں پر چڑھاتے تھے، سب کو ہم نے تباہ کردیا
(١) یعنی فلسطین اور شام کا ملک جو مصر کے پورب میں واقع ہے اور اس کے مغربی حصوں کا ملک یعنی جزیرہ نمائے سینا جو فلسطین کے پچھم میں ہے۔ یہ تمام علاقہ اس وقت مصری شاہنشاہی کا خراج گزار تھا۔ آیت (١٣٧) سے معلوم ہوا کہ خدا کا وعدہ نصرت انہی کے حق میں پورا ہوتا ہے جو اس کی شرط پوری کریں، یعنی راہ عمل میں جمے رہیں، اگر بنی اسرائیل جمے نہ رہتے تو فتح مندی سے محروم رہتے۔ بنی اسرائیل چونکہ مصری بت پرستی سے مالوف ہوچکے تھے اس لیے سینا کہ بت خانے دیکھ کر خواہشمند ہوئے کہ ان کی پرستش کے لیے بھی ایک بت بنا دیا جائے۔ حضرت موسیٰ کی سرگزشت کا پہلا حصہ ختم ہوگیا جس کا تعلق ان ایام و وقائع سے تھا جو ان کے اور فرعون کے درمیان گزرے۔ اب یہاں سے وہ واقعات شروع ہوتے ہیں جو ان کے ور ان کی امت کے درمیان گزرے۔ پہلے حصے میں یہ حقیقت واضح کی تھی کہ دعوت حق کی مخالفت ہمیشہ طاقتور جماعتوں نے کی اور ہمیشہ ناکام رہیں۔ اس حصہ میں یہ حقیقت واضح کی ہے کہ ایک نئی ہدایت یافتہ جماعت کو راہ عمل میں کیسی کیسی لغزشیں پیش آسکتی ہیں؟ تاکہ پیروان دعوت ان سے اپنی نگہداشت کریں۔ چونکہ سلسلہ بیان ایک دوسرے حصہ کی طرف مڑتا تھا اس لیے اس کی ابتدا ازسرنو بنی اسرائیل کی مخاطب سے کی گئی ہے۔ گویا موعظت و ارشاد کے لحاظ سے یہ ایک نیا بیان ہے۔ (ا) حضرت موسیٰ کا کوہ طور پر اعتکاف اور شریعت کا عطیہ۔ یہاں شریعت سے مقصود وہ دس احکام ہیں جو حضرت موسیٰ نے وحی الہی سے پتھر کی دو تختیوں پر کندہ کیے تھے اور جنہیں تورات میں عہد کے احکام سے تعبیر کیا گیا ہے یعنی قتل مت کر، زنا مت کر وغیرہا (خروج ٢٩: ٣٤) (ب) اس اصل عظیم کا اعلان کہ انسان اپنے حواس کے ذریعہ ذات باری کا مشاہدہ و ادراک نہیں کرسکتا اور اس راہ میں معرفت کا منتہی مرتبہ یہ ہے کہ عجز و نارسائی کا اعتراف کیا جائے۔ یہودیوں نے تورات کے متشابہات کو حقیقت پر محمول کرلیا تھا اور سمجھتے تھے حضرت موسیٰ نے خدا کی شبیہ دیکھی (خروج ٩: ٢٤) قرآن نے یہاں اس غلطی کا ازالہ کردیا۔ فرمایا جب خدا نے موسیٰ سے کلام کیا تو اس نے کہا میرے سامنے آجاکر ایک نگاہ دیکھ لوں یعنی جب غیب سے ندائے حق سنی تو جوش طلب میں بے خود ہوگئے اور لذت سماع کی محویت میں لذت مشاہدہ کے حصول کا ولولہ پیدا ہوگیا۔ والاذن تعشق قبل العین احیانا۔ حکم ہوا پہاڑ کو دیکھ۔ اگر یہ تاب لاسکا تو تو بھی تاب لاسکے گا۔ یعنی جو بات نظارہ سے مانع ہے وہ خود تیری ہی ہستی کا عجز ہے، یہ بات نہیں ۃ ے کہ نمود حق میں کمی ہو۔ ولنعم ما قیل : ہرچہ ہست از قامت نا ساز و بے اندام ماست ورنہ تشریف تو بر بالائے کس دشوار نیست