سورة الاعراف - آیت 99

أَفَأَمِنُوا مَكْرَ اللَّهِ ۚ فَلَا يَأْمَنُ مَكْرَ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْخَاسِرُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

کیا یہ لوگ اللہ کی چال سے بے خوف ہوگئے ہیں حالانکہ اللہ کی چال [١٠٣] سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے جو نقصان اٹھانے والی ہو

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

آیت (٩٩) کا مطلب تم سمجھے؟ عربی میں مکر کے معنی مخفی داؤ اور تدبیر کے ہیں۔ غور کرو فطرت کے داؤ کیسے مخفی اور ناگہانی ہوا کرتے ہیں؟ زلزلہ کے اسباب شب و روز نشو نما پاتے رہتے ہیں۔ سیلاب ایک لمحہ کی برف باری ہی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ آتش فشاں پہاڑوں کا لاوا برسوں تک کھولتا رہتا ہے تب کہیں جاکر پھٹنے کے قابل ہوتا ہے، فطرت چپکے چپکے یہ سب کام کرتی رہتی ہے لیکن ہمیں کہ اس کی گود میں کھلیتے کودتے رہتے ہیں ایک لمحہ کے لیے بھی اس کا گمان نہیں ہوتا کہ کوئی غیر معمولی بات ہونے والی ہے۔ یہاں تک کہ اچانک اس کا داؤ نمودار ہوجاتا ہے اور ہم یک قلم غفلت و سرمستی میں سرشار ہوتے ہیں۔ فلا یامن مکر اللہ الا القوم الخاسرون۔