وَإِلَىٰ مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ۗ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ قَدْ جَاءَتْكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ ۖ فَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
اور اہل مدین [٩٠] کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیب [٩١] کو (بھیجا) اس نے کہا : اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو تمہارے لیے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک واضح دلیل آچکی ہے لہٰذا ناپ اور تول پورا رکھا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دیا کرو۔ اور زمین میں اصلاح ہوجانے کے بعد اس میں بگاڑ پیدا نہ کرو۔ یہی بات تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم واقعی مومن ہو
(١) (ز) مدین کسی بستی کا نام نہیں۔ ایک قبیلہ کا نام تھا جو زیرہ نمائے سینا میں عرب سے متقصل آباد تھا، اسی میں حضرت شعیب کا ظہور ہوا۔ (ح) قرآن نے حضرت شعیب کی کوئی ایسی نشانی بیان نہیں کی جیسی دوسرے پیغمبروں کی بیان کی ہے اور جو متکلمین کی اصطلاح میں معجزہ کے لفظ سے تعبیر کی جاتی ہے۔ تاہم قرآن حضرت شعیب کی زبانی نقل کرتا ہے کہ واضح دلیل آچکی یہ دلیل واضح کیا تھی؟ حضرت شعیب کی تعلیم تھی جو راست بازی و عدالت کی راہ دکھاتی تھی، اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کے نزدیک انبیاء علیہم السلام کی تعلیم بجائے خود دلیل بینہ اور حجت ہے، اور ضروری نہیں کہ اس کے ساتھ کوئی دوسری نشانی اور مصطلحہ معجزہ بھی ہو۔ (ط) ماپ تول کی درستی اور یہ اصل کہ خریدوفروخت میں جو جس کا حق ہو اسے پورا ملنا چاہیے انسانی معیشت کی وہ بنیادی صداقت ہے جس کی ہمیشہ نبیوں نے تلقین کی۔ (ی) حضرت شعیب نے کہا کم از کم صبر کرو اور نتیجہ دیکھ لو، لیکن منکر اس کے لیے بھی تیار نہ ہوئے۔