وَإِلَىٰ عَادٍ أَخَاهُمْ هُودًا ۗ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۚ أَفَلَا تَتَّقُونَ
اور قوم عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہود کو بھیجا۔ اس نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا :’’اللہ کی عبادت کرو جس کے بغیر تمہارا کوئی الٰہ نہیں۔[٧٠] کیا تم (اللہ سے) ڈرتے نہیں‘‘
(١) (ج) قوم نوح کے بعد عرب میں قوم عاد کو عروج ہوا، ان کی آبادیاں عمان سے لے کر حضرموت اور یمن تک پھیل گئی تھیں، حضرت ہود کا انہی میں ظہور ہوا تھا۔ حضرت ہود کا وعظ اور قوم کا آبا و اجداد کی تقلید کی بنا پر انکار۔ قبول حق کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ آبا و اجداد کی اندھی تقلید اور گھڑٰ ہوئی بزرگیوں اور روایتی عظمتوں کی پرستش ہے۔ ابتدا میں جہل و فساد سے کوئی عقیدہ گھڑ لیا جاتا ہے، پھر ایک مدت تک لوگ اسے مانتے رہتے ہیں، پھر جب ایک عرصہ کے اعتقاد سے اس میں شان تقدیس پیدا ہوجاتی ہے تو اسے شک و شبہ سے بالا تر سمجھنے لگتے ہیں اور عقل و بصیرت کی کوئی دلیل بھی اس کے خلاف تسلیم نہیں کرتے، قرآن اسی کو (اسماء سمیتموھا انتم وابائکم) سے جابجا تعبیر کرتا ہے کیونکہ بنائے ہوئے ناموں اور لفظوں کے سوا وہ کوئی حقیقت اور معقولیت پیش نہیں کرسکتے۔ افسوس مسلمانوں میں بھی بہت سے ایسے اسماء پیدا ہوگئے ہیں جنہیں وہ حجت و دلیل سمجھنے لگے ہیں حالانکہ خدا نے ان کے لیے کوئی دلیل نہیں اتاری۔