وَبَيْنَهُمَا حِجَابٌ ۚ وَعَلَى الْأَعْرَافِ رِجَالٌ يَعْرِفُونَ كُلًّا بِسِيمَاهُمْ ۚ وَنَادَوْا أَصْحَابَ الْجَنَّةِ أَن سَلَامٌ عَلَيْكُمْ ۚ لَمْ يَدْخُلُوهَا وَهُمْ يَطْمَعُونَ
اہل جنت اور اہل دوزخ کے درمیان ایک اوٹ [٤٥] حائل ہوگی اور اعراف [٤٦] پر کچھ آدمی ہوں گے جو ہر ایک کو اس کی پیشانی کے نشانات سے پہچانتے ہوں گے۔ وہ اہل جنت کو آواز دیں گے کہ: ’’ تم پر سلامتی ہو‘‘ یہ اعراف والے ابھی جنت میں داخل تو نہ ہوئے ہوں گے البتہ اس کی امید [٤٧] ضرور رکھتے ہوں گے
(١) دو مقام ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہوں اور انہیں الگ الگ کردینا ہو تو درمیان میں دیوار کھڑی کردیتے ہیں۔ فرمایا جنت اور دوزخ کی تقسیم بھی ایسی ہی سمجھو۔ ایک دیوار ہے جس نے ایک کو دوسرے سے الگ کردیا ہے۔ ایک قدم ادھر رہ گئے تو دوزخ ہے، آگے بڑھ گئے تو جنت ہے۔ چنانچہ سورۃ حدید میں ہے۔ جنتیوں اور دوزخیوں کے درمیان ایک دیوار ہے جس میں دروازہ ہے۔ اندر جاؤ تو رحمت ہے، باہر رہو تو عذاب۔ اسی دیوار کو یہاں اعراف سے تعبیر کیا ہے، اعراف کا اطلاق ہر ایسی چیز پر ہوتا ہے جو زمین سے بلند ہو، فرمایا جنت و دوزخ کے لیے بھی ایک اعراف ہے جہاں سے دونوں طرف دیکھا جاسکتا ہے۔ اگر حقیقت کے رمز شناس ہو تو حق پالو گے کہ زندگی کے ہر گوشہ میں جنت و دوزخ کی تقسیم کا یہی حال ہے۔ دونوں کی سرحدیں اس طرح ملی ہوئی ہیں کہ ایک قدم پیچھے رہ گئے اور جنت کی جگہ دوزخ میں پڑگئے، بسا اوقات ایک قدم کی تیزی یا کوتاہی جنت سے دوزخ میں یا دوزخ سے جنت میں پہنچا دیتی ہے۔ یک لمحہ غافل بودم و صد سالہ را ہم دو رشد !!!