سورة البقرة - آیت 91

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ قَالُوا نُؤْمِنُ بِمَا أُنزِلَ عَلَيْنَا وَيَكْفُرُونَ بِمَا وَرَاءَهُ وَهُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَهُمْ ۗ قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُونَ أَنبِيَاءَ اللَّهِ مِن قَبْلُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو کتاب (قرآن) اتاری ہے اس پر ایمان لاؤ۔ تو کہتے ہیں: ’’ہم تو اسی پر ایمان لاتے ہیں جو ہم پر نازل ہوئی تھی۔ اور جو کچھ اس (تورات) کے علاوہ ہو اسے وہ نہیں مانتے۔‘‘ حالانکہ وہ (قرآن) برحق ہے جو اس (تورات) کی بھی تصدیق کرتا ہے جو ان کے پاس ہے۔ (اے پیغمبر! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے پوچھئے کہ اگر تم (اپنی ہی کتاب پر) ایمان لانے والے ہو تو اس سے پیشتر اللہ کے نبیوں کو [١٠٨] کیوں قتل کرتے رہے ہو؟

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) جب یہودیوں کو قرآن حکیم کی دعوت دی گئی تو انہوں نے توریت کے سوا اور سب چیزوں کے ماننے سے انکار کردیا ، انہوں نے کہا ، ہم تو وہی ماننے کے مکلف ہیں جو ہمارے نبی پر نازل ہوا ہے ، اس پر قرآن حکیم نے دو اعتراض کئے ہیں ایک یہ کہ اگر یہ واقعہ ہے تو تمہاری پہلے انبیاء سے کیوں جنگ رہی ؟ گزشتہ انبیاء کیوں تمہارے ظلم وستم کا نشانہ بنے رہے ؟ وہ تو سب اسرائیلی تھے ، دوسرا یہ کہ توریت وقرآن کے پیغام میں کیا اختلاف ہے قرآن حکیم تو وہی پیغام پیش کرتا ہے جو توراۃ کا موضوع اشاعت تھا پھر انکار کیوں ؟ بات اصل میں یہ ہے کہ تم نے نہ کبھی توراۃ کو مانا ہے اور نہ اب قرآن کو ماننے کے لئے تیار ہو ، ورنہ ان دونوں میں کوئی اختلاف نہیں ، پیغام ایک ہے مقصد ایک ہے تعلیم ایک ہے ، فرق صرف اجمال وتفصیل کا ہے یا نقص وکمال کا قرآن حکیم مصدق ہے مہیمن ہے اور ساری کائنات کے لئے اتحاد عمل ہے ، اس میں کوئی تعصب نہیں کوئی جانب داری نہیں ۔