قَالَ فِيهَا تَحْيَوْنَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ وَمِنْهَا تُخْرَجُونَ
نیز فرمایا: ’’اسی زمین میں تم زندگی بسر کرو گے، اسی میں مرو گے [٢٢] اور اسی سے (دوبارہ) نکالے جاؤ گے‘‘
فروگذاشت : (ف ١) اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم (علیہ السلام) نے فورا غلطی کا احساس کرلیا ، اور اللہ سے معافی مانگی ، یہی امتیاز ہے انبیاء علیہم السلام میں اور عام انسانوں میں کہ انبیاء علیہم السلام فورا اپنی فروگذاشتوں کو محسوس کرلیتے ہیں اور پیشگاہ جلالت میں عفو خواہ ہوتے ہیں ، اور عام انسان یا تو گناہوں پر متنبہ نہیں ہوتے اور یا تنبیہ کے بعد خدا کے آگے جھکتے نہیں ۔ یہ فروگذاشت محض اجتہادی ہے ، اور نیک نیتی سے ہے آدم (علیہ السلام) کا خیال تھا کہ ممانعت شاید تحریص کے لئے ہے یعنی اس لئے کہ میرے دل میں اس کے استعمال کی شدید خواہش پیدا ہو ، ملکیت یا خلود کی خواہش دراصل اللہ کے تقرب کی خواہش ہے ، شیطان نے آدم (علیہ السلام) کو یہ سمجھایا تھا کہ اس طریق سے تو اللہ کے اور قریب ہوجائے گا ، ظاہر ہے یہ مقصد بجائے خود نہایت نیک اور بلند ہے ، مگر اللہ کا منشاء چونکہ یہ نہیں تھا اس لئے اسے لغزش قرار دیا ۔ یہ یاد رہے ، کہ انبیاء علیہم السلام جب کبھی تسامح فرماتے ہیں ، تو ان کے سامنے ایک عام اور بلند چیز ہوتی ہے ، مگر خدا کا مقصد چونکہ وہ نہین ہوتا ، اس لئے اسے غلطی کہا جاتا ہے ، یعنی نفس واقعہ کے لحاظ سے نیت کے لحاظ سے نہیں کیونکہ خدا کے پیغمبر ہوائے نفس کے تابع نہیں ہوتے ، ان سے اس نوع کا گناہ کبھی سرزد نہیں ہوتا ، کہ جذبات کی پیروی ہو ، یعنی نیت درست اور بلند نہ ہو ، کیونکہ انہیں دنیا کے لئے آسودہ اور نمونہ بنا کر بھیجا جاتا ہے ، وہ عام انسانوں سے بہت اونچے ہوتے ہیں ، وہ عفت وعصمت کا پیکر تنزیہی ہیں وہ اگر خدا کے حکموں کو نہ مانیں ، تو پھر اور کون مانے گا ، بات یہ ہے کہ بعض اوقات ان کے لئے اولے وانسب میں امیتاز مشکل ہوجاتا ہے وہ ایک بات کو بتقاضائے نفس بشری اولے قرار دے لیتے ہیں مگر نفس نبوی فورا انہیں متنبہ کردیتا ہے کہ یہ صحیح نہیں بس یہی لغزش ہے تسامح ہے اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ، واللہ اعلم ۔ حل لغات : مستقر : جائے قرار ہے ۔ قبیلہ : ایسا گروہ یا جماعت جو ایک باپ کی اولاد سے ہو ۔