وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِّنكُمْ وَأَنتُم مُّعْرِضُونَ
اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا تھا کہ تم لوگ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو گے اور والدین سے، رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں سے اچھا برتاؤ کرو گے، لوگوں سے بھلی باتیں کہو گے، نماز کو قائم کرو گے اور زکوٰۃ دیتے رہو گے۔ پھر تم میں سے ماسوائے چند آدمیوں کے باقی سب اس عہد [٩٦] سے پھر گئے۔ اور (اب تک تم اس عہد سے) اعراض کر رہے ہو
(ف ١) خدا کی عبادت کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک اور سب اقرباء ومستحقین کے ساتھ مشفقانہ تعلقات کو اس لئے ضروری قرار دیا گیا کہ مذہب کی تکمیل بلا اس طرز کے ناممکن ہے ، وہ انسان جو خدا پرست ہے ، لازمی ہے کہ کائنات کے ساتھ اس کا نہایت گہرا اور محبانہ تعلق ہو ۔ بالخصوص والدین اور عزیز جو قریبی رشتہ ، الفت وشفقت رکھتے ہیں ضرور ہماری توجہ کے مستحق ہیں ، اور یاد رکھو جو اپنے عزیزوں اور بزرگوں کے حق میں بھی اچھا انسان نہیں وہ خدا کے حق میں بھی نیک انسان نہیں ہوسکتا ، گویا قرآن تقوی وصلاح کا معیار ظاہری رسوم دین نہیں قرار دیتا ، بلکہ اس کے نزدیک فلاح ونجات موقوف ہے حسن معاملت اور حقوق شناسی پر وہ کہتا ہے تم لوگوں کو محراب ومنبر میں نہ دیکھو کہ بدترین لوگ بھی زہد ورورع کے مقدس مقامات میں زینت افروز ہو سکتے ہیں ، صحیح معیار گھر کی چار دیواری ہے جو اپنے قریب ترین ماحول میں بےحسن ہے ‘ وہ معرفت الہی کی فضاء بعید اور اطراف میں کیونکر سانس لے سکتا ہے ؟ اس طور پر قرآن حکیم نے مسجد اور گھر میں ، دنیا ودین میں ایک مضبوط ربط قائم کردیا ہے اور وہ کسی قابل اخفاء زندگی کا قائل نہیں ،