أَفَغَيْرَ اللَّهِ أَبْتَغِي حَكَمًا وَهُوَ الَّذِي أَنزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلًا ۚ وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ مُنَزَّلٌ مِّن رَّبِّكَ بِالْحَقِّ ۖ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ
کیا میں اللہ کے سوا کسی اور منصف کو تلاش کروں۔[١١٨] حالانکہ اسی نے پوری تفصیل کے ساتھ تمہاری طرف کتاب نازل کی ہے اور جن [١١٩] لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ جانتے ہیں کہ یہ کتاب آپ کے پروردگار کی طرف سے حق کے ساتھ نازل ہوئی ہے۔ لہٰذا آپ شک کرنے والوں میں شامل نہ ہوں
حکم صرف خدا ہے : (ف1) دنیا میں کوئی شخصیت ایسی نہیں جس کی ہر بات براہ راست حجت وسند ہو ، انبیاء علیہم السلام کا منصب یہ ہے کہ وہ اللہ کی اجازت سے لوگوں کو رشد وہدایت کی دعوت دیتے ہیں ، اور دراصل اللہ کی جانب بلاتے ہیں ، اس لئے براہ راست حکم اور سند صرف اللہ ہی کی ذات ہے ۔ ﴿مُفَصَّلًا﴾ سے غرض یہ ہے کہ قرآن میں حضور (ﷺ) کی نبوت کے دلائل تفصیل سے موجود ہیں ، چنانچہ اہل کتاب کا حق شناس طبقہ کھلے طور پر حضور (ﷺ) کی صداقت کا اعتراف کرتا ہے ۔ تفصیل کا لفظ قرآن عظیم میں جہاں جہاں آیا ہے اس سے غرض دلائل نبوت یا دلائل اسلام کی تفصیل ہے اور اس کا تعلق غیر مسلموں سے ہے یعنی وہ اس نقطہ نگاہ سے جب قرآن کو دیکھیں گے ، تو مکمل اور مفصل پائیں گے ۔