وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِذْ قَالُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ عَلَىٰ بَشَرٍ مِّن شَيْءٍ ۗ قُلْ مَنْ أَنزَلَ الْكِتَابَ الَّذِي جَاءَ بِهِ مُوسَىٰ نُورًا وَهُدًى لِّلنَّاسِ ۖ تَجْعَلُونَهُ قَرَاطِيسَ تُبْدُونَهَا وَتُخْفُونَ كَثِيرًا ۖ وَعُلِّمْتُم مَّا لَمْ تَعْلَمُوا أَنتُمْ وَلَا آبَاؤُكُمْ ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ
ان لوگوں نے اللہ کو ایسے نہیں پہچانا جیسے اسے پہچاننا چاہئے تھا، کہتے ہیں کہ اللہ نے کسی بشر پر کبھی کچھ نہیں اتارا۔ آپ ان سے پوچھئے : جو کتاب موسیٰ لائے تھے اسے کس نے اتارا [٩٣] تھا ؟ (وہ کتاب) جو لوگوں کے لیے نور اور ہدایت تھی۔ تم نے اسے ورق ورق بنا رکھا ہے۔ ان میں سے کچھ ورق تو ظاہر کرتے ہو اور زیادہ [٩٣۔ ١] چھپا جاتے ہو۔ اور اس کتاب سے تمہیں وہ کچھ سکھایا گیا تھا جو نہ تم جانتے تھے اور نہ تمہارے آباؤ اجداد۔ آپ کہہ دیجئے کہ ''اسے اللہ ہی نے اتارا تھا'' پھر انہیں چھوڑیئے کہ وہ اپنی فضول بحثوں میں ہی پڑے کھیلتے رہیں
ما قدرو اللہ حق قدرہ : (ف ٣) سب کو اللہ نے پیدا کیا ہے سب کو اسی نے خلعت حیات سے نوازا ہے ، اسی نے زندہ رکھا اور زندگی کے لوازمات پورے کئے وہی سنتا ہے ، وہی جانتا ہے ۔ دکھ ، درد اور تکلیف ومصیبت میں اسی کی کارسازی بروئے کار آتی ہے ، وہ نہ چاہے تو دنیا میں پتہ نہ ہل سکے ، یہ سب اس کے انعامات ہیں ، مگر انسان ہے کہ اسے نہیں پہچانتا ۔ حق قدرہ : سے یہ مقصود نہیں ہے کہ اللہ کی معرفت کی کوئی حد ہے کس کے بس میں ہے کہ وہ باندازہ نعمت اس کا شکریہ ادا کرسکے ؟ ایک ایک سانس جو ہم لیتے ہیں ہزار در ہزار نعمتوں کو مرہون منت ہے پھر انسان کے لئے یہ کیونکہ ممکن ہے کہ اس کی تعریف وستائش سے کما حقہ عہدہ برآہو سکے ، غرض یہ ہے کہ تم جو کچھ اور جس حد تک کرسکتے ہو ، اس سے تو دریغ نہ کرو یہ تو بالکل سہل اور ممکن ہے ، کہ تمہارا سر کسی دوسرے کے آستانے پر نہ جھکے ، تم شرک سے باز آجاؤ اور ایک اللہ سے تعلق خاطر رکھو ۔ اس کے تشکر کی ایک صورت یہ ہے کہ اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرو ، کیونکہ وہ شخص جو اللہ کے حکموں کو نہیں مانتا وہ اس کی ربوبیت کی نعمتوں سے ناآشنا ہے ، حل لغات : حبط : ضائع ہوگیا ، عمل میں حبط اعمال کے معنی عمل کی نااستواری ہیں ۔ قراطیس : جمع قرطاس بمعنی کاغذ ، ورق : ام القری : مکہ کا نام ، کیونکہ اس نواع کی تمام آبادیوں میں یہ پہلی آبادی ہے ۔