فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَٰذَا رَبِّي هَٰذَا أَكْبَرُ ۖ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ
پھر جب سورج کو جگمگاتا ہوا دیکھا تو بولے : یہ میرا رب ہے؟ یہ تو سب سے بڑا ہے پھر جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہنے لگے : اے میری قوم! جن (سیاروں کو) تم اللہ کا شریک بناتے ہو میں ان سے بیزار ہوں
سیر ملکوت : (ف ١) ان آیات میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے انتقالات ذہنی یا واردات توحید کا بیان کیا گیا ہے ، یعنی یہ کہ کیونکر وہ توحید کے راز تک پہنچے جبکہ ان کے گروہ پیش شرک وبت پرستی کی آندھیاں چل رہی تھیں ، یہ واضح رہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ایک لمحہ کے لئے بھی چاند اور تاروں کو معبود نہیں مانا ، بلکہ مقصود یہ ہے کہ حضرت ابراہم (علیہ السلام) فطرتا سلجھے ہوئے دماغ کے آدمی تھے ، وہ فورا بھانپ گئے کہ چمکتے تاروں اور درخشان ‘ مہتاب وجہانتاب میں کوئی بھی خدا ہونے کا استحقاق نہیں رکھتا ، کیونکہ یہ سب افول وزوال سے دوچار ہوتے ہیں البتہ صرف ایک ذات ہے جسے اللہ کے پروقار لفظ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ، اور وہ وہ ہے جس نے ان سب کو پیدا کیا ، ابراہیم (علیہ السلام) کے سلسلہ فکر کو اس انداز میں پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کواکب پرست حضرات توحید کی طرف رجوع کریں ، اور وہ ان حقائق پر غور کریں ، جنہیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پیش کیا ہے ۔ توحید دراصل انسانی غور وفکر کا معراج کمال ہے ، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کی اس کاوش فکر کو سیر ملکوت سے تعبیر کیا ہے ۔ حل لغات : بازغۃ : چمکتا ہوا ، عربی میں شمس مؤنث ہے ، افلت : غروب ہوگیا ، چھپ گیا ، بریئ: پاک ہونا ، آزاد ہونا ۔