قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِلِقَاءِ اللَّهِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا جَاءَتْهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً قَالُوا يَا حَسْرَتَنَا عَلَىٰ مَا فَرَّطْنَا فِيهَا وَهُمْ يَحْمِلُونَ أَوْزَارَهُمْ عَلَىٰ ظُهُورِهِمْ ۚ أَلَا سَاءَ مَا يَزِرُونَ
بلاشبہ جن لوگوں نے اللہ سے ملاقات (کی حقیقت) کو جھٹلایا وہ نقصان میں رہے حتیٰ کہ جب قیامت اچانک انہیں آ لے گی تو کہیں گے :''افسوس اس معاملہ میں ہم سے کیسی تقصیر ہوئی۔ اس وقت وہ اپنے گناہوں کا بوجھ [٣٥] اپنی پشتوں پر لادے ہوں گے۔ دیکھو! کیسا برا بوجھ ہے جو وہ اٹھائیں گے
(ف1) قیامت کے کئی نام ہیں ، ان میں ایک الساعۃ بھی ہے یعنی وقت مقرر اور متعین پر آنے والی ۔ بَغْتَةً سے مراد یہ ہے کہ گو وہ مقدر ہے ، مگر دنیا والوں کو اس کا صحیح صحیح علم نہیں وہ اچانک غیر متوقع طور پر آجائے گی ، آیت کا مقصد یہ ہے کہ یہ مکے والے جو خدا سے نہیں ڈرتے ، جنہیں یوم حساب کا کوئی خوف نہیں ، بےدھڑک اور بلاتامل نافرمانیوں میں مبتلا اور مصروف ہیں ، یہ اس وقت کیا جواب دیں گے ، جب قیامت اچانک آکر ان کی مسرتوں کا خاتمہ کر دے گی ، اور یہ دیکھتے کے دیکھتے رہ جائیں گے ، گناہوں پر پیٹھ کے لادنے کے معنی یہ ہیں کہ گناہ کا وزر اور بوجھ نتائج کی شکل میں یہ بھگت رہے ہوں گے یا محسوس کر رہے ہوں گے ، یہ بھی ہو سکتا ہے اس وقت اعمال کوئی جسمانی قالب اختیار کرلیں ، حل لغات: بَغْتَةً: اچانک ، ناگہان ، غیر متوقع انداز میں ، فَرَّطْنَا: تقصیر اور کوتاہی کرنا ۔