قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۚ وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ ۚ أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اللَّهِ آلِهَةً أُخْرَىٰ ۚ قُل لَّا أَشْهَدُ ۚ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ
آپ ان سے پوچھئے کہ : سب سے بڑھ کر (سچی) گواہی کس کی ہے؟'' آپ کہئے :''اللہ کی، [٢٠] جو میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے، نیز یہ کہ یہ قرآن [٢١] میری طرف وحی کیا گیا ہے تاکہ اس سے میں تمہیں بھی ڈراؤں اور ان سب کو بھی جن تک یہ پہنچے۔ کیا تم واقعی یہ گواہی دے سکتے ہو کہ اللہ کے ساتھ دوسرے الٰہ بھی ہیں؟'' آپ ان سے کہئے :'' میں تو ایسی گواہی [٢٢] نہیں دیتا، الٰہ صرف وہ ایک ہی ہے اور میں اس شرک سے (بالکل) بیزار ہوں جو تم کر رہے ہو
(ف2) قصد یہ ہے کہ قرآن حکیم کا نزول اس لئے ہوا ہے ، تاکہ اس کی ہدایات کو عالمگیر کیا جائے ، اور ہر شخص تک اس کے پیغام كو پہنچایا جائے ، ﴿هَذَا الْقُرْآنُ﴾سے مراد جلب التفات ہے ، نزول ووحی کا حصر نہیں ۔ یعنی مقصود یہ نہیں کہ قرآن کے علاوہ اور کوئی چیز وحی والہام نہیں ، بلکہ یہ ہے کہ یہ قرآن وحی کی صورت میں نازل اس لئے ہوا ہے تاکہ سب تک پہنچے ۔ حل لغات : تَشْهَدُونَ: مادہ شہادت ۔ گواہی دینا ، اعتراف کرنا ، ماننا ، یہاں مقصود اقرار کرنا ہے ، اس لئے جوابا فرمایا ، قُلْ لَا أَشْهَدُ: یعنی کہدو ، میں نہیں مانتا ۔