يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ
اے ایمان والو! تم ان پاکیزہ چیزوں کو کیوں حرام [١٣١] ٹھہراتے ہو۔ جنہیں اللہ نے تمہارے لیے حلال کیا ہے اور حد سے نہ بڑھو۔ کیونکہ اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا
(ف2) بیشتر کی آیات میں ” قِسِّيسِ اور رھبان “ کی تعریف مذکور ہے صحابہ کی دل میں طبعا دنیا سے علیحدگی کی خواہش پیدا ہوئی ، اور انہوں نے ترک لذات کا عہد کرلیا ، گوش نبوت تک جب یہ معاملہ پہنچا ، تو زبان وحی نے اس آیت میں روک دیا اور کہا تحریم لذات جائز نہیں ، دین ترک لذائذ اور تعذیب نفس کا نام نہیں ، بلکہ جذبات میں اعتدال پیدا کرنے کا اس لئے خدا کی سب نعمتیں تمہارے لئے حلال وطیب ہیں ساری اچھی چیزیں کھاؤ ، مگر ایمان واتقاء کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے ۔ حل لغات: وَلَا تَعْتَدُوا: مصدر اعتداء ، زیادتی ، حد ااعتدال سے تجاوز ،