لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا ۖ وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُم مَّوَدَّةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَىٰ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيسِينَ وَرُهْبَانًا وَأَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ
جو لوگ ایمان لائے ہیں آپ دیکھیں گے کہ ان سے عداوت رکھنے میں لوگوں میں سب سے بڑھ کر یہودی اور مشرکین ہیں اور جن لوگوں نے کہا تھا کہ ''ہم نصاریٰ ہیں'' انہیں آپ مسلمانوں سے محبت [١٢٨] رکھنے میں قریب تر پائیں گے۔ وجہ یہ ہے کہ ان میں عبادت گزار عالم اور زاہد پائے جاتے ہیں اور وہ متکبر نہیں ہوتے
(ف1) قرآن حکیم نے جہاں یہودیوں کی قساوت قلبی کا تذکرہ کیا ہے اور مشرکین مکہ کی عداوتوں کو بیان کیا ہے وہاں نہایت فراخ دلی کی ساتھ عیسائیوں کی تعریف بھی کی ہے ، فرمایا ہے کہ یہودی اور مشرک مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن ہیں ، مگر عیسائیوں میں ایسے فقیر اور صلح جو لوگ موجود ہیں جو کبر وپندار کے مرض سے آلودہ نہیں ہوتے اور جن کے تعلقات مسلمانوں کے ساتھ زیادہ دوستانہ اور محبانہ ہیں ۔ وجہ یہ تھی کہ یہودی مال ودولت کے نشے میں مخمور تھے دینداری اور تورع کے لئے ان کے دلوں میں کوئی جذبہ نہ تھا ، اس لئے وہ طبعا ہر اس تحریک سے متنفر تھے جو انہیں پاکبازی کی دعوت دے اور عیسائی چونکہ رہبانیت کی طرف مائل تھے اس لئے نسبتا زیادہ متاثر اور روادار تھے ۔ حل لغات : مَوَدَّةً: دوستی ومحبت ۔ قِسِّيسِ: اصل میں کشیش تھا جس کے معنی پہلوی میں میرآتشکدہ یا عالم دین کے ہیں ، ممکن ہے ‘ یہ لفظ سنسکرت کے لفظ شیش سے بگڑا ہو جس کے معنی شاگرد کے ہیں ، عربی میں قسیس کے معنی عالم باعمل کے ہیں ۔