وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ
اور وہ مال کی محبت [٨] میں بری طرح مبتلا ہے
سورۃ العدیت ف 1: ان آیتوں میں نہایت ہی لطیف پیرایہ میں یہ بیان فرمایا ہے کہ انسان انپے رب کی رحمتوں اور بخششوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا ۔ اسے تو چاہیے تھا کہ جس طرح اس نے اس کو عدم سے وجود بخشا ہے ۔ گویائی کی قوت عطافرمائی ہے ۔ سمجھ دی ہے اور سارے عالم کائنات کو اس کیلئے مسخر کردیا ۔ ہر آن اس کے سامنے جھکارہتا ہے اور کبھی اس کے حکموں کی تعمیل سے انحراف نہیں کرتا ۔ اللہ کی نعمتیں اور انعامات اس درجہ زیادہ ہیں کہ ان کا احصار ہی ناممکن ہے اور اگر انسان چاہے بھی کہ ان نعمتوں کا شکریہ ادا کرے ۔ جو اس پر واجب ہے تو کبھی اس فرض کو ادا نہ کرسکے ۔ اگرچہ ہر بن ، مو ، زبان سپاس بن جائے اور ہر زبان وقف حمدو ستائش ہوجائے ۔ اللہ کے بےشمار فضل وبخشش کا تقاضا تو یہ تھا کہ حضرت انسان بکمال وفاداری اپنی جان تک اس کی محبت میں لٹا دیتا اور دریغ نہ کرتا ۔ مگر اس میں تو اتنی وفاداری بھی نہیں ہے جتنی ایک جانور میں ہوتی ہے ۔ گھوڑوں کو دیکھئے کہ مالک کے ساتھ ایک اولیٰ سا تعلق ہے ۔ مگر اس کے اشارے پر کس رطح اپنی جان تک خطروں میں ڈال دیتے ہیں ۔ میدان جہاد میں تلواروں اور نیزوں کی چھاؤں میں دوڑتے چلے جاتے ہیں ۔ نتھنوں سے آگ برستی ہے ۔ ٹاپ پتھروں سے متصادم ہوتے ہیں اور شعلے نکلتے ہیں دشمنوں کی صفوں میں صبح تک جاپہنچتے ہیں اور حملہ کردیتے ہیں ۔ غباراڑاتے ہوئے زوروں میں اور سپاہیوں کی صفوں میں بلا خوف گھس جاتے ہیں اور داد شجاعت وفرمانبرداری دیتے ہیں ۔ کیا یہ جگر داری ، یہ محبت ، یہ وفا اور یہ جذبہ ایثار انسانوں میں بھی ہے ؟ کیا یہ لوگ بھی اللہ کے لئے اتنی شدید محنت اور قربانی کو برداشت کرسکتے ہیں ؟ فرمایا ۔ انسان ناشکری کے ساتھ مال ومنال کی محبت میں گرفتار رہے اور اس مبالغے کے ساتھ گرفتار ہے کہ ایک لمحہ اس سے علیحدگی گوارانہیں کرتا ۔ کیا اس کو معلوم نہیں ہے کہ ایک دن ایسا آنے والا ہے ۔ جبکہ تمام لوگ قبروں سے اٹھا کر کھڑے کئے جائیں گے اور ان کے سینے کے تمام بھید ظاہر ہوں گے ۔ اس وقت علیم وخبیر خدا ان کو ان کے کئے دھرے کی سزا دے گا اور ان کو بتائے گا کہ ان ارزل ترین خواہشات کا یہ احترام کس درجہ سزا کا موجب ہے *۔ حل لغات :۔ صبحا ۔ ہانپنا * نقعا ۔ غبار * لکنود ۔ ناشکر *۔