وَلَن تَسْتَطِيعُوا أَن تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ ۖ فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ ۚ وَإِن تُصْلِحُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا
اگر تم اپنی بیویوں کے درمیان کماحقہ عدل کرنا چاہو بھی تو ایسا ہرگز نہ [١٧١] کرسکو گے لہٰذا یوں نہ کرنا کہ ایک بیوی کی طرف تو پوری طرح مائل ہوجاؤ [١٧٢] اور باقی کو لٹکتا چھوڑ دو۔ اور اگر تم اپنا رویہ درست رکھو اور اللہ سے ڈرتے رہو تو بلاشبہ اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے
ممکن عدل : (ف1) آیت نشوز کے بعد تعدد ازدواج کا ذکر اس بات کی طرف لطیف اشارہ ہے کہ یہ بجائے خود اختلاف اور عداوت کا باعث ہے ، اس لئے بجز مخصوص حالات کے کسی معمولی قوت ونفوذ کے آدمی کو تعدد وازدواج کی جرأت نہ ہونی چاہئے ۔ ﴿وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا﴾کے معنی یہ ہیں کہ حقیقی عدل ممکن نہیں جس کا تعلق جذبات سے ہے ، اس لئے کہ دنیا کا سب سے بڑا انسان جو اسوہ جمیل کے ساتھ نوازا گیا ہے ، ان الفاظ میں معذرت خواہ ہے ” هَذَا قَسْمِي فِيمَا أَمْلِكُ وَأَنْتَ أَعْلَمُ بِمَا لَا أَمْلِكُ “۔ یعنی اے خدا جہاں میرے امکان میں ہے میں انصاف وعدل کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا مگر بعض منزلیں ایسی بھی ہیں جہاں مساوات قطعا ناممکن ہے ﴿فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ﴾کہہ کر امکانی حدود کی توضیح فرما دی ہے کہ ایک بیوی پرایسا نہ ریجھ جاؤ کہ دوسری بالکل ہی فراموش ہوجائے ، جن لوگوں نے تعدد ازدواج کی ممانعت اس آیت سے سمجھی ہے وہ غلطی پر ہیں آیت کا انداز بیان صاف طور پر اسے ایک حقیقت مسلمہ قرار دیتا ہے ۔