سورة النسآء - آیت 127

وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ ۖ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ وَمَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ فِي يَتَامَى النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا تُؤْتُونَهُنَّ مَا كُتِبَ لَهُنَّ وَتَرْغَبُونَ أَن تَنكِحُوهُنَّ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الْوِلْدَانِ وَأَن تَقُومُوا لِلْيَتَامَىٰ بِالْقِسْطِ ۚ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِهِ عَلِيمًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

لوگ آپ سے عورتوں کے بارے میں فتویٰ پوچھتے ہیں۔ آپ ان سے کہئے کہ ان کے بارے میں اللہ تمہیں فتویٰ دیتا ہے اور اس بارے میں بھی جو یتیم عورتوں سے متعلق اس کتاب میں [١٦٦] پہلے سے تمہیں سنائے جاچکے ہیں جن کے مقررہ حقوق تو تم دیتے نہیں (میراث وغیرہ) اور ان سے نکاح کرنے کی رغبت رکھتے ہو اور ان بچوں [١٦٧] کے بارے میں بھی جو ناتواں ہیں، نیز اللہ تمہیں یہ بھی ہدایت دیتا ہے کہ یتیموں کے ساتھ انصاف پر قائم رہو اور جو بھلائی کا کام تم کرو گے، اللہ یقیناً اسے خوب جانتا ہے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ٢) مقصد یہ ہے کہ عورتوں اور یتیم بچوں کے ساتھ برا سلوک اس بات کا متقاضی ہے کہ خاص ہدایات نازل کی جائیں جس میں مسلمانوں کو حسن معاشرت کا درس دیا جائے ۔ یہ ضروری نہیں کہ جہاں قرآن حکیم میں استفتاء یا سوال کا ذکر ہے وہاں درحقیقت سائلین کی ایک جماعت بھی موجود ہے یہ قرآن حکیم کا طرز بیان ہے کہ وہ سوال طلب حالات کو استفتاء سے تعبیر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ طبیعتوں میں چونکہ تشویش استفسار کی بین علامتیں موجود ہیں اس لئے اس کا جواب یہ ہے ۔ (آیت) ” یستفتونک “۔ سے مراد یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام بجائے خود حجت وسند ہوتے ہیں اور ان کی یہ حیثیت اس قدر واضح ہے کہ غیر مسلم تک معترف ہیں ۔ (ف ١) عرب نہایت حریص وطمع تھے یتامی کی تربیت محض اس لئے اپنے ذمہ لیتے تاکہ ان کے مال ودلوت سے ناجائز فائدہ اٹھایا جائے اور اس کی کئی صورتیں تھیں (آیت) ” وان تقوموا لیتمی بالقسط “۔ کہہ کر عدل وانصاف پر آمادہ کیا ہے (آیت) ” وما تفعلوا من خیر “۔ میں یہ بتایا ہے کہ تمہیں تو یتیم بچوں اور بچیوں سے عدل وانصاف کے علاوہ حسن سلوک اختیار کرنا چاہئے تھا ، نہ کہ جوروستم ڈھانے لگو ۔ حل لغات : نقیر : حقیر ترین ۔ ذرہ برابر ۔ خلیل : دوست ۔