لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ
کہ ہم نے انسان کو بہترین ساخت [٥] پر پیدا کیا ہے
اس وقت جبکہ دنیا میں انسانیت کی توہین ہورہی تھی ۔ اور انسانیت کے لئے خود انسانوں کے دلوں میں کوئی جذبہ عزت واحترام نہ تھا ۔ اس وقت جب پتھر پوجتے تھے ۔ درخت محترم تھے ۔ دریامقدس تھے ۔ قبریں اور مزار قابل عزت وشرف تھے ۔ انسان کی حیثیت محض حقیر پجاری کی تھی ۔ اس وقت جبکہ کلیسا سے اس کو ابدی وازلی گنہگار کا سرٹیفکیٹ مل چکا تھا اور ہندو نقطہ نگاہ سے اس کی تناسخ کے آہنی چکر سے رہائی ناممکن تھی اور یہ موجود زندگی نتیجہ قرار دی جارہی تھی سابقہ کئی ہزار گناہوں کا ۔ اسلام اٹھا اور ان سے انسانی شرف وفضیلت کے عالم بوسیدہ کو پھر سے جلا دی اور علی الاعلان کہا کہ انسان کو بہترین انداز میں پیدا کیا گیا ہے ۔ یہ اس لئے نہیں متصہ شہود پر آیا ہے کہ شجر وحجر کے سامنے سرجھکائے ۔ بلکہ اس لئے آیا ہے کہ ساری کائنات اس کے سامنے جھکے اور اس کی بزرگی اور برتری کا اقرار کرے ۔ یہ فطرت کے اعتبار سے گنہگار نہیں ہے ۔ اور اپنی ساخت کے اعتبار سے اشرف المخلوقات ہے پہلی دفعہ دنیا میں آیا ہے کہ بردبحر میں اپنی زندگی کا علم گاڑدے ۔ ثبوت یہ ہے کہ انسانی عظمت وبزرگی کی تاریخ پر غور کرو ۔ ارض کو دیکھو ۔ جس میں حضرت مسیح (علیہ السلام) اپنی رفعت کا اعلان کیا ۔ ارض زیتون یعنی ملک شام کو ملاحظہ کرو کہ بڑے بڑے جلیل القدر انبیاء کا مہبط ومسقط ہے ۔ طور پرجلوہ فرمائی کے واقعات پرغور کرو کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی جلالت وبزرگی پر شاہد ہے اور پھر فخر موجودات سیداکوان اور صاحب بلدامین کی شان دیکھو ، تمہیں معلوم ہوجائیگا کہ انسانیت کا رتبہ کتنا بلند اور ارفع ہے ۔ یہ وہ تعلیم ہے جو انسانیت کے افق کو تابناک اور روشن بنادیتی ہے اور جس کی وجہ سے انسان اس قابل ہوجاتا ہے کہ اس دنیا کی تگ ودو میں حوصلہ مندانہ حصہ لے *۔ حل لغات :۔ فاذافرغت فانصب ۔ یعنی جب عبادات سے فارغ ہوجائے تو کھڑا ہوجا * والی ربک فارغب ۔ اور جو کچھ مانگنا ہے اللہ سے مانگ * والتین ۔ ناصرہ سے تعبیر ہے * والزیتون ارض شام سے مراد ہے * وطور سینین ۔ وہ پہاڑ مقصود ہے جہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے شرف ہم کلامی حاصل کیا * تقویم ۔ ترکیب ۔ ساخت ۔ انداز ، صورت * ثم رددنہ ۔ یعنی اصل اور فطرت کے اعتبار سے تو آسان نیک اور صالح ہے مگر کبھی کبھی خواہشات کی پیروی میں اس مقام فضیلت سے نیچے اتر آتا ہے *۔