وَمَن يَكْسِبْ إِثْمًا فَإِنَّمَا يَكْسِبُهُ عَلَىٰ نَفْسِهِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا
اور جو شخص کوئی گناہ کا کام کرتا ہے تو اس کا وبال اسی پر ہوتا ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا حکمت والا ہے
گناہ کی حقیقت : (ف1) اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ گناہ چونکہ ذات باری سے متعلق نہیں اور اس کا نقصان صرف انسان کی اپنی ذات تک محدود ہے ‘ اس لئے تلافی ناممکن ہے ، یہ غلط عقیدہ ہے کہ گناہ بہرحال قابل تعزیر ہے اور خدا گناہوں کو بوجہ عادل ومنصف ہونے کے بخش نہیں سکتا ، اس طرح کے عقیدے سے ایک طرف تو کامل مایوسی پیدا ہوتی ہے اور دوسری جانب خدا کی توہین لازم آتی ہے ، کیونکہ وہ قادر ومختار کریم ہر وقت ہمارے گناہوں پر خط تنسیخ کھینچ سکتا ہے ، اس کا رحم وکرم ہر آن اسے بخشش وعفو پر آمادہ کرتا رہتا ہے۔ اس کی ادنی توجہ ہمارے دفتر عصیاں کو پاکیزہ کرسکتی ہے ، اس کے متعلق یہ کہنا کہ وہ گناہوں کو معاف نہیں کرسکتا ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ” قانون عدل وانصاف “ کی قوت اس سے زیادہ بڑی ہے ، حالانکہ عدل وانصاف کا مطلب محض خدا کا حکم وارادہ ہے جو کہہ دے وہ انصاف ہے اور جو کر دے وہ عدل ۔ کوئی قانون وضابطہ ایسا نہیں جسے وہ ماننے کے لئے مجبور ہو ۔ وہ بےنیاز ومتعال ہے ، وہ مقنن اور قانون ساز ہے اور کوئی بات ایسی نہیں جو اس کی ذات عالیہ سے بالا ہو ۔