سورة النسآء - آیت 100

وَمَن يُهَاجِرْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَجِدْ فِي الْأَرْضِ مُرَاغَمًا كَثِيرًا وَسَعَةً ۚ وَمَن يَخْرُجْ مِن بَيْتِهِ مُهَاجِرًا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

اور جو شخص اللہ کی راہ میں ہجرت [١٣٦] کرے گا وہ زمین میں ہجرت کے لیے بہت جگہ اور بڑی گنجائش پائے گا۔ اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی طرف آپ نے گھر سے ہجرت کرتے ہوئے نکلے پھر (راہ ہی میں) اسے موت آلے تو اللہ کے ہاں [١٣٧] اس کا اجر ثابت ہوچکا۔ اور اللہ بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

(ف1) مراغم کا اشتقاق رغم سے ہے جس کے معنی خاک آلودہ کرنے کے ہیں ۔ علی رغم الف فلاں کا محاورہ اسی سے ماخوذ ہے ، یعنی مہاجرین جب ظلم واستبداد کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ملک چھوڑ دیں گے تو انہیں ایسی جگہیں مل جائیں گی جو دشمنوں کی پامالی اور تحقیر کا باعث بنیں گی اور جس کی وجہ سے ظالم وسرکش کا تمام کبر وغرور خاک میں مل جائے گا ۔ ہجرت کے معنی جہاں یہ ہیں کہ بطور احتجاج کے ظالم ومستبد حکومت کا ملک چھوڑ دیاجائے ، وہاں یہ بھی ہیں کہ مسلمان نہایت شریف النفس اور آزاد قوم ہے ضمیر ومذہب کی غلامی اس کے نزدیک بدترین گناہ ہے مسلمان اجنبی ممالک میں رہ کر تکلیف وتنگ دستی کے مصائب کو برداشت کرسکتا ہے مگر ایک لمحہ کی غلامی اس کے لئے ناقابل برداشت ہے ﴿فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ﴾ سے مراد یہ ہے کہ اصل میں جہاد و ہجرت کا تعلق قلب ودماغ کی بےچینی سے ہے ، وہ لوگ جو احساسات وخیالات میں کفر کے لئے سخت اضطراب ونفرت پنہاں رکھتے ہیں وہ مجاہد ہیں گو حالات انہیں منزل مقصود تک پہنچنے کی اجازت نہ دیں ۔ حل لغات : مُرَاغَمًا: ایسی جگہ جو دشمنوں کے لئے باعث توہین وتحقیر ثابت ہو ۔