ثُمَّ إِنَّهُمْ لَصَالُو الْجَحِيمِ
پھر یقیناً وہ جہنم میں گرنے والے ہیں
ف 1: اس دن افسوس ان لوگوں کے لئے ہے جو مکذب ہیں اور مکافات عمل کے اصول کو تسلیم نہیں کرتے ۔ جو یہ نہیں مانتے کہ ان کو مرنے کے بعد زندہ ہوتا ہے ۔ اور اپنے اعمال کا جواب وہ ہوتا ہے ۔ جن کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ مٹی میں مل کر مٹی ہوجانے کے بعد کیونکر دوبارہ زندگی عطا ہوسکے گی ۔ اور جن کے نزدیک عقلاً یہ مست بعد ہے کہ حیات رواں دواں اور مسلسل ہے ۔ جن کا عقیدہ یہ ہے کہ جو کچھ بھی بری بھلی زندگی ہے ، یہی ہے اس کے بعد نہ برزخ ہے نہ جنت اور نہ دوزخ ۔ قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ ان لوگوں کا انکار بربنائے معقول نہیں ہے ۔ ان کے پاس دلائل نہیں ہیں ۔ جن کی وجہ سے کفر پر مصر ہوں اور جزاوسزا کے اس قانون عدل وانصاف کو نہ مانیں ۔ بلکہ اس انکار وکفر کے پس پردہ سب سے بڑا محرک جذبہ معصیت ہے ۔ خواہشات نفسانی کی تکمیل کے سلسلہ میں یہ نہیں چاہیے کہ کوئی قانون ، کوئی ضابطہ اور کوئی دین درمیان میں حامل ہو اور ان کو فسق وفجور کے لذائذ سے روک دے ۔ کبرونخوت کا یہ عالم ہے کہ جب قرآن حکیم کی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ، تاکہ ان کو روشنی اور نور کے اکتساب کا موقع ملے تو یہ نہایت بےتوجہی سے کہہ اٹھتے ہیں کہ اس میں بجز پہلوں کے قصے کہانیوں کے اور کیا رکھا ہے ۔ حالانکہ واقعہ ایسا نہیں ہے ۔ یہ وہ کتاب ہے جس میں زندگی کے معارف اور روح کی بالیدگی اور رفعت سے بحث کی گئی ہے ۔ جس میں قوموں کے عروج وزوال کے اسباب بیان کئے گئے ہیں ۔ جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ انسان کے لئے قانون فطرت کیا ہے جس میں اخلاق ومعاشرت کی وہ گتھیاں سلجھائی گئی ہیں جن کو انسان ناخن تدبیر سے اب تک نہیں سلجھا سکا ہے ۔ جس میں خدا تک پہنچنے کے اور اس کے حصول وتقرب کے وسائل کی تشریح ہے *۔ اور جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہر زمانے میں وہ کون دین ہے جو کائنات انسانی کے لئے سرمایہ صدررحمت وبرکت قرار دیا جاسکتا ہے ۔ ان لوگوں کی رائے غوروفکر پرمبنی نہیں ہے *۔ بلکہ بات یہ ہے کہ قلب بےحس ہوچکا ہے ۔ گناہوں کا غبار اس پر چھا گیا ہے اور بصیرت اور نور دب چکا ہے ۔ اب اس میں وہ معرفت نہیں ہے ۔ وہ عمق اور گہرائی نہیں ہے جس کی وجہ سے انسان کسی معاملہ کی تہ تک پہنچ سکتا ہے *۔ حل لغات :۔ معتد ۔ حداعتدال وتوازن سے بڑھ جانے والا * اثیم ۔ عادی مجرم * ران ۔ زنگ بیٹھ گیا ۔ دل کی حقیقت پر غالب آگیا ۔ چھا گیا *۔