إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّمَن يَخْشَىٰ
اس واقعہ میں سامان عبرت [١٨] ہے اس شخص کے لیے جو (اللہ کی گرفت سے) ڈرتا ہے
سنۃ اللہ ف 1: ان آیتوں میں بطور تذکیر بسنتہ اللہ کے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ ارشاد فرمایا ہے کہ ان کو طویٰ کی مقدس وادی میں اللہ تعالیٰ نے مخاطب کیا اور کہا کہ ارض مصر میں فرعون باغی وسرکش ہوگیا ہے ، اس کی سرکوبی کے لئے روانہ ہوجاؤ۔ اور اس سے اولاً یہ کہو کہ کیا تم پاکبازی کی زندگی بسر کرنا چاہتے ہو اور تمہاری یہ خواہش ہے کہ میں تم کو راہ راست پر گامزن کردوں ۔ اگر مان لے تو فبہا ورنہ بنی اسرائیل کو اس کے چنگل سے چھڑا لاؤ اور اس کی قوت وتدبیر کا مقابلہ کرو ۔ چنانچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس کے پاس پہنچے اور اس کے سامنے معجزات وخوارق پیش کئے اور کہا کہ میں اللہ کاسچا رسول (علیہ السلام) ہوں ۔ مگر اس نے بہر طور تکذیب کی اور اپنے اعوان وانصار اور عام لوگوں کو جمع کرکے کہنے لگا کہ تم مجھ کو خدا کی طرف بلاتے ہو ۔ مگر تم کو معلوم ہونا چاہیے کہ میں سب سے بڑا خدا ہوں ۔ اس لئے تمہارے دین کی پیروی کی کوئی ضرورت نہیں محسوس کرتا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہ ارض مصر کا سب سے بڑا اور زبردست انسان غریب اور غلام اسرائیلیوں کے سامنے قلزم میں بیچارگی کے ساتھ مارا گیا اور انہوں نے اس کو انتہائی ذلت وعاجزی کے عالم میں پانی میں ڈوبتے دیکھا ۔ یہ اللہ کا عذاب تھا جو اس نوع کے تمام مکہ کے سرداروں کو بتایا ہے کہ تم قوت وشوکت اور لاؤ لشکر میں فرعون کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔ نافرمانی اور سرکشی کی پاداش میں اس کایہ حشر ہوا ہے ۔ تو تم کیونکر محفوظ رہ سکتے ہو ۔ تمہارے لئے اس واقعہ میں بڑی عبرت کا سامان ہے ۔ بشرطیکہ دلوں میں ذرہ برابر بھی اللہ کا ڈر اور خوف ہو ۔ حل لغات :۔ نکال الاخرۃ ۔ آخرت کا عذاب ۔ لعبرۃ ۔ نصیحت کی بات *۔