وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا
(مسلمانو!) تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں جہاد نہیں کرتے جبکہ کئی کمزور مرد، عورتیں اور بچے ایسے ہیں جو یہ فریاد کرتے ہیں کہ : اے ہمارے پروردگار! ہمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی جناب [١٠٤] سے ہمارے لیے کوئی حامی اور مددگار پیدا فرما دے''
نفیر عام : (ف2) ہجرت کے بعد بعض لوگ مکہ میں ایسے رہ گئے جو نہ ہجرت پر قادر تھے نہ جہاد پر مکہ والے انہیں مجبور کرتے کہ وہ اسلام کو چھوڑ دیں ، ان کا ایمان انہیں ہر ابتلاء وآزمائش کو برداشت کرلینے کی تلقین کرتا ۔ ان آیات میں مسلمانوں کو اعلان عام کے ذریعہ سے جہاد پرآمادہ کیا ہے کہ ان کمزور وناتواں مسلمانوں کی حفاظت کے لئے سینہ سپر ہوجائیں ، اس لئے کہ مسلمان ” مظلوم وضعیف “ ہو کر دنیا میں نہیں رہ سکتا ، وہ ضعف وظلم کے خلاف اعلان جنگ ہے ، اس کا ذرہ ذرہ بغاوت وانقلاب میں سمویا ہوا ہے ، اس کی رگوں میں خون کی جگہ آزادی وخلافت کی بجلیاں دوڑ رہی ہیں ، ناممکن ہے کہ وہ مسلمانوں کو کمزور ومضمحل دیکھے اور اس کے دل میں غیرت وغصہ کا طوفان نہ بپا ہوجائے ، اس کی فطرت حق وصدق کی تائید کے لئے ہے ، وہ منصہ شہود پر آیا ہی اسی لئے ہے کہ اللہ کی نیابت کا حق ادا کرے اور ظلم وعدوان کے خلاف پرزور آواز بلند کرے ، بلکہ طغیان وسرکشی کے خلاف خود رعد وصاعقہ بن جائے اور زمین استبداد کے لئے تہلکہ کی شکل اختیار کرلے ، یہی وہ توقعات ہیں جو مسلمانوں سے وابستہ ہیں اور اسی لئے خدائے غیور کا خطاب ہے ۔ ﴿وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ﴾یعنی اے جہاد سے پیچھے رہنے والے انسانو ! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم باوجود مسلمان ہونے کے اس فریضہ سے غافل ہوگئے ہو ۔ گویا ظالموں سے جہاد کرنا مرد ، مومن کی شریعت میں داخل ہے جس سے ایک لمحہ بھی تغافل جائز نہیں اس آیت میں تعجب وتوبیخ کو باہم ملا دیا ہے ﴿وَمَا لَكُمْ﴾ کہہ کر اظہار تعجب بھی کیا ہے اور ڈانٹا بھی ہے کہ کیوں جہاد پر آمادہ نہیں ہوتے ۔