إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا
(اور انہیں کہتے ہیں کہ) ہم تمہیں صرف اللہ کی رضا کی خاطر کھلاتے ہیں ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے [١٢] ہیں اور نہ شکریہ
کوائف جنت ف 2: کوائی جنت کے متعلق اصولی یہ سمجھ لینا چاہیے ۔ کہ یہ بقول حضرت ابن عباس کے محض اسماء ہیں جن کی حقیقت سے ہم آگاہ ہیں ۔ فلا تعلم نفس ماعق الھم من فوق اعین دانہ وہاں جو اہتمام ہے ۔ جو حسن ہے جو کمال ہے ۔ اور فیوض ہیں ۔ ان کو نہ زبان علم سے ادا کیا جاسکتا ہے اور نہ بشری طات ہے ۔ کہ ان کے الفاظ کو منتخب کرسکے ۔ مختصر الفاظ میں ساری جنت کا مفہوم یہ ہے ۔ کہ خدا خوش ہے ۔ اور وہ اپنے بندوں کو خوش کرنا چاہتا ہے ۔ اور جب وہ خوش ہو ۔ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے ۔ جس نے ستاروں کو اور نجوم وکواکب کو بنایا ہے ۔ جس نے چاند کو روشنی بخشی ہے اور آفات کو ضیاء جس نے پھولوں میں خوشبورکھی ہے ۔ اور ٹہنیوں میں لچک وہ جب خوش ہو ۔ اور اپنی خوشی کا اظہار کرنا چاہے ۔ تو آپ ہی بتائیے کہ وہ اظہار کتنا خوبصورت کس درجہ ماحول اور کس درجہ حیرت انگیز ہوگا ۔ جنت مقام رضا ہے ۔ اس لئے یہاں کی یہ چیزیں نظاط اور مسرت کا ظہور ضروری ہے ۔ بعض لوگوں نے جنت کی ان کوائف کو سن کر اعتراض کیا ہے ۔ یہ کیسی جنت ہے جس میں یہ تمام وہی مزخرفات ہیں جو دنیا میں ہیں ؟ ان کو اولاً یہ معلوم ہونا چاہیے ۔ کہ دنیا کی چیزوں اور انکا مقابلہ ہی کیا ہے ۔ یہ عارضی اور فانی وہ دائمی اور ابدی ، یہ ناقص وہ کامل ان میں تکدرت دینوی کا اندیشہ ان میں بالکل نہیں ۔ ثانیا یہ کیا ضورت ہے ۔ کہ نجات کے لئے ایسی دنیاکا ہونا زیبا ہو ۔ جہاں اس دنیا کی خواہات حد سے دنیا کی ضروریات نہ ہوں ۔ یہ خیال محض رہبانیت پر مبنی ہے ۔ ورنہ جہاں تک انسانی فطرت کا تقاضا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ ہر انسان دل کی گہرائیوں کے ساتھ یہ چاہتا ہے ۔ کہ وہ ایک ایسی دنیا میں چلا جائے ۔ جہاں غم نہ ہو ۔ فکرواندیشہ نہ ہو ۔ جہاں اپنے عزیزوں کو کوئی تکلیف نہ ہو ۔ جہاں ہمیشہ جوان رہیں ۔ جہاں تازگی اور مسرت کے پورے لوازم ہر آن موجود رہیں ۔ اور جہاں روح اور جسم کی تمام خوشیاں مہیا ہوں ۔ قرآن کہتا ہے ایسی دنیا موجود ہے ۔ اور اس کے حصول کا طریقہ یہ ہے ۔ کہ اس دنیا میں اپنے ارادوں اور اپنی خواہشات کو اللہ کے تابع کردہ نتیجہ یہ ہوگا ۔ کہ اس دنیائے مسرت واجتہاج کو وہ تمہارے تابع کردیگا ۔ کہیے اس میں کوئی اعتراض کی بات ہے ۔ اصل میں یہ اعتراضات اس لئے نہ قابل التطبات ہیں کہ ان میں انسانی فطرت کی صحیح ترجمانی نہیں کی گئی ۔ یہ اوپر سے دل کی پیداوار ہیں ۔ اور ان کا مقصد یہ ہے ۔ کہ یہ معلوم کرلیا جائے ۔ کہ کیا واقعی اس طرح ہونے والا ہے ؟*۔ حل لغات :۔ بانیۃ ۔ جام ۔ برتن ۔ ظروف * اکواب ۔ کوب کی جمع ہے ۔ بےٹونٹی اور دستے کے آب خورے * تحواریرمن خفیہ یعنی وہ آنجورے ، چاندی اور شیشے کے مرکب سے بنائے جائیں گے ۔ زنجبیلا ۔ سونٹھ ۔ عرب اس مشروف کو پسند کرتے تھے ۔ جس میں سونٹی کی آمیزش ہو ۔ کیونکہ اس میں ذرا خوشگوار قسم کی تلخی پیدا ہوجاتی ہے ۔ سلسبیلا ۔ خوشگوار بہشت کیا یک چشمہ کانام ہے ۔ پانی کی صفائی اور روانی کی مناسبت سے اس کا نام رکھا گیا ہے * محاراون ۔ خدمت کے لئے ایسے بچے جو ہمیشہ بچے رہیں ۔ عام طور پر ان کو اس لئے پسد کیا جاتا ہے کہ یہ کام چشتی اور پھرتی سے کرتے ہیں ۔ مگر بڑوں کی طرح حریص اور طماع نہیں ہوتے ۔ نیز معلوم ہونے کی وجہ سے وہ خدمات کے لئے اس لئے بھی موزوں ہیں ۔ کہ ان کے آنے جانے میں اہل خانہ کو کوئی تکلف نہیں ہوتا ۔ لولورا منشور ۔ یعنی یہ خوبصورت بچے اہل جنت کے کاموں میں ابوہر میں کچھ اس طرح بکھرے ہوئے گے کہ ان پر موتیوں کا دھوکہ ہوگا *۔ حل لغات :۔ النذر ۔ فرائض یا واجبات ۔ لفظ نذر وفرائض ماجہات کے معنوں میں اس لئے استعمال کیا ہے ۔ تاکہ یہ معلوم ہو ۔ کہ اللہ کے پاکباز بندوں کی نگاہوں میں ان ادا کرنا کتنا ضروری ہے *۔ تصریۃ ۔ تروتازگی * زمھریر ۔ جاڑا ۔ سردی کی سختی ؟