لَا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ
میں قیامت کی دن کی قسم کھاتا [١] ہوں
سورۃ القیامہ ف 1: لا صرف ترئین واستہلال ہے ۔ قسم سے پہلے بطور افتتاح کے عام طور پر عربی لٹریچر میں آتا ہے ۔ اصرار لقیس کے ایک قصیدہ کا آغاز یوں ہوتا ہے ؎ لاوابیک انتباہ انعامری لایدعی انقوم انی افر یوم قیامت اور نفس محاسبہ میں مناسبت یہ ہے ۔ کہ دراصل برے فعل پر نفس کی ملامت نفسیاتی نقطہ نگاہ سے ہلکی کسی عقوبت اور سزا ہے ۔ اور اس کو اگر پھیلا کر آپ دیکھئے اور ممثل شکل میں ملاحظہ کیجئے گا ۔ تویہی وہ نظام قیامت ہے ۔ جس کو قرآن حکیم پیش فرماتا ہے ۔ اور جو مشرکین مکہ کی سمجھ میں نہیں آتا ۔ قرآن حکیم دراصل انسان کی توجہ کو خود اس کے باطن کی طرف مبذول کرنا چاہتا ہے ۔ اور یہ کہنا چاہتا ہے ۔ کہ تم لوگ نظام مکافات اور آخرت وبعثت کے تخیل کی مخالفت تو کرتے ہو ۔ مگر یہ نہیں دیکھتے کہ یہی چیز چھوٹے پیمانے پر خود تمہارے اندر موجود ہے ۔ اور ہر آن اور ہر لحقہ ۔ تم اس سے دوچار ہوتے ہو ۔ اور یہ نفس توامہ ہے ۔ فرمایا ۔ کہ یہ لوگ سمجھتے ہیں ۔ کہ ہم ان کی بوسیدہ ہڈیوں کو جمع نہیں کرسکیں گے ۔ اور ان کو دوبارہ زندگی نہیں عنایت کرسکیں گے ۔ حالانکہ ہم کو یہ قدرت حاصل ہے ۔ کہ ہم ان کی انگلیوں کی پوروں تک کو اکھٹا کرکے درست کردیں *۔ حل لغات :۔ تسورۃ ۔ شیر درندہ *۔