وَجَعَلْتُ لَهُ مَالًا مَّمْدُودًا
اسے لمبا چوڑا مال عطا کیا
ولید بن مغیرہ (ف 1) جمہور مفسرین کے نزدیک ان آیات کا مصداق ولید بن مغیرہ ہے ۔ فرمایا اس کو ہم نے مال ودولت کی نعمت سے نوازا مکہ سے طائف تک اس کے قافلے تجارت کے رواں دواں تھے بیٹے دیئے جو سب زندہ اس کے سامنے موجودتھے اور اس کے کاروبار میں شریک تھے ۔ عزت وجاہ عطا کی پھر اس کی حرص وآزکا یہ عالم ہے کہ اس کے باوجودبھی اضافہ کا طالب ہے ۔ مگر اب ہم کچھ نہیں دیں گے کیونکہ یہ ہماری آیتوں کا سخت مخالف ہے ۔ عنقریب اس کو شدید ترین عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا ۔ اور اس کو معلوم ہوگا کہ یہ دولت وثروت یہ اعوان وانصار اور عزت ومختار ان میں سے کوئی چیز بھی اللہ کے عذاب سے نہیں بچاسکتی ۔ اس کا جرم یہ ہے کہ اس نے جب قرآن حکیم کو سنا اور یہ جانا کہ اس میں حق وصداقت ہے اور کہا کہ اس میں شرینی اور حلاوت ہے اس میں بلاغت فصاحت کا وافر حصہ ہے اور یہ ہر طرح غالب رہے گا ۔ مغلوب نہیں ہوسکے گا تو قوم نے کہا کہ تیرے منہ سے یہ تعریف قریش کے بہت سے سمجھ دار لوگوں کو صابی بنادے گی اور گمراہ کردے گی اس پر اس نے نتائج وعواقب پرنظر ڈالی لگام کی قدروقیمت کا اندازہ کیا پھر سوچا اور بالآخر اظہار تنفر کے انداز میں جس سے دیکھنے والے یہ سمجھیں کہ اس پر قرآن کا کچھ بھی اثر نہیں ہے کہنے لگا کہ میری رائے میں یہ قرآن جادو ہے ۔ جو منقول چلا آتا ہے اور یہ ضرور انسانی کلام ہے گویا اس طرح اس رائے کو چھپانا چاہاجس کا اظہار وہ ازراہ دیانت کرچکا تھا ۔ حالاں کہ فی الحقیقت فردا فردا تمام ائمہ قریش قرآنی عظمت ورفعت کے قائل تھے اور یقین رکھتے تھے کہ یہ انسانی کلام نہیں ہے ۔ بات صرف یہ تھی کہ اس کو کلام الٰہی تسلیم کرلینے سے ان کی مشکلات میں اضافہ ہوجاتا تھا ان کی قیادت چھن جاتی تھی ان کے اقتدار کو صدمہ پہنچتا تھا اور ان کا کبروغرور مٹ جانا تھا اسی لئے وہ یہی موزوں سمجھتے تھے کہ اس کی مخالفت کی جائے اور اپنے وقار کو ضائع کیا جائے ۔