إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا
(مسلمانو!) اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ جو لوگ امانتوں کے حقدار [٨٩] ہیں انہیں یہ امانتیں ادا کردو۔ اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف [٩٠] سے فیصلہ کرو۔ اللہ تعالیٰ یقینا تمہیں اچھی نصیحت کرتا ہے اور وہ سب کچھ سننے والا اور دیکھنے والا ہے
اداء امانت : (ف2) امانت کا لفظ جہاں معاملات میں امانت حقوق پر بولا جاتا ہے وہاں پورے دین وضابطہ شرع پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے ، چنانچہ ارشاد ہے﴿إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا﴾ الخ یعنی ذمہ داری کا یہ پروگرام جس کا نام اسلام وفطرت ہے بجز انسانوں كے اور كسی کے حصہ میں نہیں آیا ۔ پس ادائے امانت کے معنی نہایت وسیع وعریض ہیں یعنی ہر حق اور فرض کی ادائیگی ۔ اسی لئے اس کی ایک صورت یہ بیان کی کہ جب لوگوں میں فیصلہ کرو تو عدل کو ہاتھ سے نہ جانے دو یعنی مسلمان کی ہر بات عادلانہ ومنصفانہ ہو ، بڑی سے بڑی قوت انہیں حق کے اظہار سے مانع نہ ہو ۔ کوئی لالچ ، کوئی ترغیب اور کوئی ڈر مسلمان کو جورو تعدی پر آمادہ نہیں کرسکتا ، مسلمان دنیا میں پیکر عدل امانت بن کر آیا ہے ، اس لئے اس سے کسی مداہنت ومنافقت کی توقع اس کی فطرت کے خلاف ایک مطالبہ ہے جس کی کبھی تکمیل نہیں ہو سکتی ۔