فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا
اور کہا کہ اپنے پروردگار سے معافی مانگ لو، بلاشبہ وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔
دین فطرت برکت اور دولت ہے ف 2: ان آیات میں حضرت نوح (علیہ السلام) نے دین کے متعلق ایک بہت بڑی غلط فہمی کا زالہ فرمایا ہے ۔ عام طور پر دینداری اور مذہب کے معنے یہ ہیں ۔ کہ یہ دنیا میں ترقی اور تقدم کی دشمن ہے ۔ اور اس کی وجہ سے افلاس فخر اور نیکی تقوی اور پاکیزگی قرار پاتی ہے ۔ اس میں حمق ، بےوقوفی معرفت اور دانائی ہے فرمایا ۔ یہ بات قطعاً غلط ہے ۔ اگر تم لوگ اپنے رب سے تعلقات عقیدت وارادت وابستہ کرلو ۔ اور خلوص کے ساتھ اس سے اپنی لغزشوں اور کوتاہیوں کی تلاف چاہو ، تو وہ ایسا نہیں ہے ۔ کہ معاف نہ کرے ۔ اور تم کو اپنے قرب اور حضوری کا موقع نہ بخشے ۔ تم دیندار ہوجاؤ۔ اور اس کی اطاعت کا ربقہ اپنے گلے میں ڈال لو ۔ پھر دیکھو ۔ کہ کیونکر آنکھوں میں ترر اور قلب میں سرور پیدا ہوتا ہے ۔ * کیونکہ آسمان سے برکات اور انوار کا مسلسل اور مہم نزول ہوتا ہے ۔ اور کس طرح تمہارے مال اور اولاد میں اضافہ ہوتا ہے ۔ تم دیکھو گے ۔ کہ جہاں جنت میں تمہارے لئے باغ ہیں ۔ نہریں ہیں اور نہایت تکلف اور ٹھاٹھہ کی زندگی ہے ۔ یہ محض غلط ہے ۔ کہ خدا کے ساتھ احتساب اور عقیدت کا نتیجہ محض افلاس ہے ۔ کیا یہ فعل بھی قرین دانش ہے ۔ کہ وہ خدا جو خزائن ارض وسماوی کا مالک ہے اس کی دوستی قلاش اور مفلس بنادے *۔ حقیقت یہ ہے ۔ کہ یہ باتیں اس نے مشہور کررکھی ہیں ۔ جو دین کی فطرت سے آگاہ نہیں ہیں ۔ اور جو خوداللہ سے کوئی حسن ظن نہیں رکھتے اور ان لوگوں نے اس نوع کی خرافات کو پھیلایا ہے ۔ جو دین کے نادان دوست ہیں ۔ جو مجوسیت اور رہبانیت کو زہد و تقوے کے نام سے موسوم کرکے مسلمانوں کو اپاہیج اور بیکار بنانا چاہتے ہیں ۔ ورنہ دین فطرت سے ، عقل ودانش ہے ۔ ترقی وترفع ہے ۔ اور عمل وجہد ہے ۔ جس کو اپنا لینے سے ساری دنیا مسخرہوجاتی ہے *۔