أُولَٰئِكَ فِي جَنَّاتٍ مُّكْرَمُونَ
یہی لوگ عزت و احترام کے ساتھ جنتوں میں رہیں گے
نمازی کی سیرت ف 2: قرآن حکیم یہ خوبی شان امتیاز رکھتی ہے ۔ کہ اس میں حقائق نفسیات کا بھی مذکر ہے ۔ یعنی اس کتاب علم ومعرفت میں یہ بھی بتایا گیا ہے ۔ کہ انسانی فطرت کیا ہے ؟ فرمایا ۔ اس میں ایک ہم گیر عیب یہ ہے ۔ کہ یہ کم ہمت اور بےصبر ہے ۔ اگر اس کو ذرا تکلیف پہنچتی ہے ۔ تو بلبلا اٹھتا ہے ۔ اور نالہ وشیون سے آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے ۔ اور جہاں بیٹھتا ہے اسی بات کا تذکرہ کرتا ہے ۔ کہ میں بہت مصیبت زدہ ہوں ۔ مجھ کو فلک ستم شیوہ نے بہت دکھ پہنچایا ہے ۔ اور اگر برے دن پھرجائیں اور آسودہ حال ہوجائے ۔ تو پھر انتہا درجے کا بخیل اور ممسک ہوجاتا ہے ۔ پائی پائی کو گنتا ہے ۔ اور پیسے پیسے کا حساب رکھتا ہے *۔ اور اگر کوئی محتاج اور فقیر اس کے دروازے پر دستک دے اور صدقہ اور خیرات کی آرزو رکھے ۔ تو اس کو مایوس کرکے لوٹاتا ہے ۔ اور کہتا ہے ۔ کہ میں نے جو دولت حاصل کی ہے اپنی محنت اور قابلیت سے کی ہے تم کو کیوں دوں ۔ اور تمہارے خدا کا کیا احترام کروں ۔ جاؤ خود کماؤ ۔ اور خود کھاؤ۔ ہاں نمازی اس عیب سے یک قلم بری ہوتے ہیں *۔ خدائے آسمان وزمین کی عبادت کی وجہ سے ان کا ظرف عالی ہوجاتا ہے ۔ ان کا تعلق چونکہ بڑی سرکار سے ہوتا ہے ۔ اس لئے قلب میں وسعت اور حوصلہ مندی نمایاں ہوتی ہے ۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں ۔ جو وقع اس ذوق عبودیت کے جذبہ کو برقرار رکھتے ہیں ۔ ان کے مال ودولت میں مانگتے ہوں اور محتاجوں کا ایک مقرر حصہ ہوتا ہے ۔ یہ بےشک اس متعین مقدار کو اور نہیں کرلیتے ۔ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتے ۔ ان کو دروازے سے مایوس ہوکر نہیں لوٹتا ۔ ان کے دل میں خدا کا خوف ہوتا ہے ۔ یہ قیامت پر ایمان رکھتے ہیں ۔ اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہی ۔ اور کیوں نہ ڈریں ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کسی وقت بھی انسان آفات سماوی وارضی کی طرف سے محفوظ نہیں ہے ۔ یہ عفیف اور پاکباز ہوتے ہیں ۔ اور جنسیات پر پورا پورا ضبط واختیار رکھتے ہیں ۔ اور بجز اپنی رفیقہ حیات یا مملوکہ کے اور کسی سے صنفی تعلق نہیں رکھتے ۔ یہ اس لئے فرمایا ۔ کہ بالکل قطع تعلق اور جنسیات سے علیحدگی معاف نہیں ہے جبکہ رہبانیت ہے جس کو اسلام ہرگز پسند نہیں کرتا ۔ عقاف کے معنے اسلام میں یہ ہیں کہ بیوی تو موجود ہے ۔ مگر اس کے سوا اور کسی عورت سے جنسی تعلق نہ ہو ۔ ان میں یہ خوبی بھی ہوتی ہے انکو امانت اور عہد کا بہت پاس ہوتا ہے ۔ اور گواہی پر اپنی مضبوطی کے ساتھ قائم رہتے ہیں ۔ اور پھر نمازوں پر کامل توجہ مبذول کرتے ہیں ۔ اور خشیت وخضوع کے ساتھ اس فرض کو ادا کرتے ہیں ۔ یہی لوگ عنداللہ مکرم اور مضتحر ہیں ۔ اور جن کے دائمی رہنے کی جگہ باغات ہیں *۔ واضح رہے کہ قرآن کی ان آیات میں عام انسانوں سے نمازی کو مستثنیٰ قرار دیا ہے ۔ اور فرمایا ہے ۔ کہ اس کی فضیلت ان عام انسانوں سے الگ ہوتی ہیں ۔ اور پھر ان کی تفصیل بیان فرمائی ہے ۔ جس سے بادنی تامل معلوم ہوجاتا ہے ۔ کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک نمازی کی کتنی عزت وحرمت ہے اور وہ نمازی سے کن عادات واخلاق کا متوقع ہے *۔ نمازی کو یہاں بطور ایک صاحب سیرت انسان کے بیان کیا ہے ۔ جس کے صاف معنی یہ ہیں ۔ کہ مسلمانوں کے لئے صرف یہ کافی نہیں ہے ۔ کہ قبلہ رو ہوکر مسجد میں اس کے سامنے کھڑے ہوجائیں ۔ اور چند مقررہ حرکات کو معرض عمل میں لے آئیں ۔ بلکہ ضرورت اس بات کی ہے ۔ کہ نماز کی حقیقی اہمیت کو سمجھیں ۔ اور اس کے ظاہر کے ساتھ اس کی معنویت کو بھی اپنے میں پیدا کریں ۔ اس کو پر جائے عادت اختیار نہ جریں ۔ بلکہ اصلاح وترفع کی ایک تحریک سمجھیں نتیجہ یہ ہوگا ۔ کہ مندرجہ بالا تمام خوبیاں خود بخود پیدا ہوجائیں گی *۔ حل لغات :۔ فضیلۃ ۔ کنبہ * ھولعا ۔ کم ظرف ۔ نہایت حریص ۔ بےصبر * جزوعا ۔ گھبرا اٹھنے والا * متوعا بخیل وممسک *۔ حل لغات :۔ مشفقون ۔ ڈرتے ہیں * العدون ۔ حد شرعی سے تجاوز کرنے والا *۔