يَا أَيُّهَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ آمِنُوا بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُم مِّن قَبْلِ أَن نَّطْمِسَ وُجُوهًا فَنَرُدَّهَا عَلَىٰ أَدْبَارِهَا أَوْ نَلْعَنَهُمْ كَمَا لَعَنَّا أَصْحَابَ السَّبْتِ ۚ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا
اے اہل کتاب! جو کچھ ہم نے نازل کیا ہے (قرآن) اس پر ایمان لے آؤ۔ یہ کتاب اس کتاب کی بھی تصدیق کرتی ہے جو تمہارے پاس ہے۔ اس سے پہلے ایمان لاؤ کہ ہم تمہارے چہرے بگاڑ کر تمہاری پشتوں کی طرف پھیر دیں یا تم پر ایسے ہی پھٹکار ڈال دیں جیسے اہل سبت [٧٩] پر ڈالی تھی اور اللہ کا حکم تو نافذ ہوکے رہتا ہے
(ف ١) اس آیت میں یہود کو دعوت ایمان دی ہے اور کہا ہے قرآن حکیم سابقہ حقائق ومعارف کا مصدق ہے ۔ یہ انہیں معارف وحکم کو پیش کرتا ہے جن سے تمہارے کان آشنا ہیں ۔ اس لئے تم پرلازم ہے کہ اس کو مانو اور یاد رکھو ، نہ مانو گے تو ایک وقت ایسا آئے گا جب تمہارے چہرے مسخ کر دئے جائیں گے ۔ طمس کے معنی مٹانے کے ہیں ” مفازۃ طامسۃ “ اس جنگل کو کہتے ہیں جس میں کوئی اثرونشان نہ رہ گیا ہو ۔ طمس اللہ علی بصرہ “ سے مراد ہے خدا نے اس کی بصارت کو ضائع کردیا ، وجوہ ۔ وجہ کی جمع ہے جس کے معنی چہرے کے ہیں ۔ کبھی کبھی وجوہ کا اطلاق اعیان وزعماء قوم پر بھی ہوتا ہے ۔ اس لئے بعض لوگوں نے اس کے یہ معنی بھی لئے ہیں کہ وقت سے پہلے پہلے ایمان لے آؤ جب تمہارے اعیان ووجوہ کو ذلت وحقارت سے نکال دیا جائے اور ان کی عزت خاک میں مل جائے ، چنانچہ عبدالرحمن بن زید کہتے کہ یہ پیش گوئی پوری ہوچکی ۔ یہود قریضہ ونضیر کو ان کی بستیوں سے نکال کر اور ھات ویمانء میں جلا وطن کردیا گیا ۔ یہ معنی درست ہیں مگر تھوڑے سے تکلف کے ساتھ ، قرآن حکیم کی زبان کی شگفتگی اور سادگی ان معنوں کی زیادہ مؤید نہیں ۔ اگر مقصد یہی ہوتا تو فنردھا کی بجائے فنردھم علی ادبارھم ہونا چاہئے تھا ۔ بات یہ ہے کہ قیامت کے دن جو سزائیں مقرر ہیں وہ اعمال سیئہ کے بالکل متناسب ہیں ، دنیا میں ان لوگوں نے چوں کہ قرآن حکیم کی جانب کوئی توجہ نہیں کی ‘ اس لئے آخرت میں ان کے چہروں کو مسخ کردیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہی تمہاری عدم توجہی کی عملی سزا ہے ۔