كَذَّبَتْ ثَمُودُ وَعَادٌ بِالْقَارِعَةِ
قوم ثمود اور عاد نے کھڑکھڑانے [٢] والی (قیامت) کو جھٹلایا [٣] تھا
ف 2: ان آیات میں یہ قانون واضح فرمایا ہے ۔ کہ کوئی قوم زندگی کا اس وقت تک استحقاق نہیں رکھتی ۔ جب تک کہ اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین کی اطاعت نہ کرے ۔ اور اپنی خواہشات کو اس کے ارادہ اور منسا کے تابع نہ کردے ۔ کیونکہ مقدرات میں سے ہے ۔ کہ کوئی نفس اس سرچشمہ حیات وور سے الگ رہ کر اپنی انفرادیت باقی نہیں رکھ سکتا ۔ چنانچہ جب کسی قوم نے اس اصول کو نہیں سمجھا ۔ اور اللہ کے حکموں کی پرواہ نہیں کی ۔ اس کا غصہ بھڑکا ۔ اور اس کو زندگی سے محروم کردیا ۔ ثمود وحاد کی قوم مٹادی گئی *۔ فرعون اور اس کا لاؤ لشکر قلزم میں اپنی عزت وحکمت سمیت ڈبودیا گیا ۔ قوم لوط کی بستیاں الٹ دی گئیں ۔ اور اسی طرح جب بھی کسی قوم نے سرکشی اور تمرد کا اظہار کیا ہے ۔ اللہ اس کے غرور کو خاک میں ملادیا ۔ اس کے بعد ایک دوسرے قانون کا ذکر فرمایا ہے ۔ اور وہ یہ ہے ۔ کہ جہاں فاسقوں اور فاجروں کو اللہ نے سزا دی ہے ۔ وہاں عین حالت عذاب میں پاکبازوں کی حفاظت اور ان کی دستگیری کی ہے ۔ مثال میں حضرت نوح کو دیکھئے کہ اس وقت جب کہ آسمان کے دروازے کھل گئے ۔ اور زمین کے چشمے سمندر اگلنے لگے ۔ اللہ نے ان کو توفیق مرحمت فرمائی ۔ کہ اپنی اور مومنین کی حفاظت کیلئے ایک کشتی بنائیں ۔ اور اس کو بلا خطر اس طوفان میں ڈال دیں ۔ اور یہ اس لئے ہوا تاکہ منکرین یہ محسوس کریں ۔ کہ یہ عذاب محض اتفاق وبخت کا نتیجہ نہیں ۔ بلکہ علیم وحکیم خدا کے فیصلہ کے مطابق نازل ہوا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں نافرمانوں کو غرق کیا گیا ہے ۔ وہاں مومنوں کو بھی بچایا گیا ہے *۔ حل لغات :۔ الطاغیہ ۔ زور دار آواز * صرصرا ۔ تیز وتند ہوا * عاتیۃ ۔ عتو سے ہے ۔ سرکش * حشوھا ۔ مسفسل ۔ تباہ کن *۔