سورة القلم - آیت 48

فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تَكُن كَصَاحِبِ الْحُوتِ إِذْ نَادَىٰ وَهُوَ مَكْظُومٌ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

پس آپ اپنے پروردگار کے حکم کے انتظار میں صبر کیجئے اور مچھلی والے [٢٤] (یونس) کی طرح نہ ہونا جب انہوں نے پکارا اور وہ غم سے بھرے [٢٥] ہوئے تھے

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

(ف 3) یعنی ان لوگوں کے انکار وکفر پر آپ غمگین ہوکر حضرت یونس (علیہ السلام) کی طرح بددعا میں اور ترک شفقت میں جلدی نہ کریں ۔ اور پورے صبروسکون کے ساتھ ان کی ان حرکتوں کو برداشت کریں ۔ اللہ نے چاہا تو آپ کی آواز صدابصحرا ثابت نہیں ہوگی ۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کا قصہ یہ ہے کہ آپ قوم کی نافرمانی سے رنجیدہ ہو کر اللہ کے عذاب کے طالب ہوئے اور اصلاح سے مایوس ہوکر قوم کو چھوڑ کر ہجرت پر آمادہ ہوگئے ۔ یہ ادا اللہ تعالیٰ کو پسند نہ آئی اور سزا یہ ملی کہ جب دریا پار کرنے لگے تو ایک بڑی مچھلی کا لقمہ بن گئے اور اگر پھر اللہ کی طرف سے توبہ وانابت کی توفیق مرحمت نہ ہوتی تو مچھلی کے پیٹ سے نہ نکلتے اور اللہ کا انعام شامل حال نہ ہوتا تو میدان میں برے حالوں پڑے رہتے ۔ یہ اللہ کا فضل تھا کہ اس نے حضرت یونس (علیہ السلام) کو دوبارہ زندگی بخشی اور اس قابل بنایا کہ وہ ازسر نو تبلیغ ودعوت کے فرائض کو انجام دے سکیں ۔ حل لغات: الْحُوتِ۔ مچھلی۔ مَكْظُومٌ۔ غم غصہ میں مبتلا ، غم اور اندوہ سے معمور ۔