فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تَكُن كَصَاحِبِ الْحُوتِ إِذْ نَادَىٰ وَهُوَ مَكْظُومٌ
پس آپ اپنے پروردگار کے حکم کے انتظار میں صبر کیجئے اور مچھلی والے [٢٤] (یونس) کی طرح نہ ہونا جب انہوں نے پکارا اور وہ غم سے بھرے [٢٥] ہوئے تھے
ف 2: یعنی ان لوگوں کے انکار وکفر پر آپ غمگین ہوکر حضرت یونس (علیہ السلام) کی طرح دبدعا میں اور ترک شفقت میں جلدی نہ کریں ۔ اور پورے صبروسکون کے ساتھ ان کی ان حرکتوں کو برداشت کریں ۔ اللہ نے چاہا ۔ تو آپ کی آواز صدابحر ثابت نہیں ہوگی ۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کا قصہ یہ ہے ۔ کہ آپ کی نافرمانی سے رنجیدہ ہو کر اللہ کے عذاب کے طالب ہوئے اور اصلاح سے مایوس ہوکر قوم کو چھوڑ کر ہجرت پر آمادہ ہوگئے ۔ یہ ادا اللہ تعالیٰ کو پسند نہ آئی ۔ اور سزا یہ ملی ۔ کہ دب دریا پار کرنے لگے ۔ تو ایک بڑی مچھلی کا لقمہ بن گئے ۔ اور اگر پھر اللہ کی طرف سے توبہ وانابت کی توفیق مرحمت نہ ہوتی ۔ تو مچھلی کے پیٹ سے نہ نکلتے ۔ اور اللہ کا اقدام شامل حال نہ ہوتا ۔ تو میدان میں برے حالوں پڑے رہتے ۔ یہ اللہ کا فضل تھا ۔ کہ اس نے حضرت یونس (علیہ السلام) کو دوبارہ زندگی بخشی ۔ اور اس قابل بنایا ۔ کہ وہ از سر نو تبلیغ ودعوت کے فرائض کو انجام دے سکیں *۔