أَمْ تَسْأَلُهُمْ أَجْرًا فَهُم مِّن مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُونَ
یا آپ ان سے کوئی صلہ مانگتے ہیں کہ وہ تاوان (کے بوجھ) سے دبے [٢٢] جارہے ہیں
ف 2: امرتسئلھم کا تعلق آیات ماسبق سے ہے ۔ مقصود یہ دریافت کرتا ہے کہ یہ لوگ ایمان کی نعمت سے آخر محروم کیوں ہیں ۔ آخر جب یہ بات طے ہے ۔ کہ اسلام انسانیت کے لئے آخری پیغام ہے ۔ اس میں تمام روحانی اور مادی مشکلات کا حل ہے ۔ اس میں نجات وسعادت ہے ۔ فلاں دارین ہے ۔ بالیدگی اور ارتقاء ہے ۔ اور جب یہ مسلم ہے ۔ کہ اس نے محض اپنی تعلیمات کی صداقت کی وجہ سے اتنی بڑی کامیابی حاصل کی ہے ۔ کہ انسانوں کو پشتی اور فیض سے اٹھایا ہے ۔ اور انتہائی بلندیوں تک اچھال دیا ہے ۔ عربوں کو جو جرائم پیش اقوام میں سے تھے تعلیم روحانیت واخلاق کا ناپیدار بنادیا ہے ۔ اور دیکھتے دیکھتے علم وصنعت کے ایک عالم نو کی بنیاد رکھی ہے ۔ کہ دنیائیکفر کی آنکھیں اس کی روشنی اور چمک سے غیرہورہی ہیں ۔ ان حالات میں سوال یہ ہے کہ یہ لوگ کیوں اس صداقت کو قبول نہیں کرتے ۔ اور کیوں خداونددوجہان کے سامنے نہیں جھکتے اور ان عظمتوں اور بلندیوں پر فائز نہیں ہوتے *۔ کیا ان سے مذہب کی اشاعت کے نام پر کچھ تاوان وصول کیا جاتا ہے جس کے بوجھ تلے وہ دبے ہوئے ہیں یا یہ بات ہے ۔ کہ ان کو علم غیب سے بہروافر ملا ہے ۔ جو ان کے پاس لکھا رکھا ہے ۔ بہرحال کچھ تو بتانا چاہیے ۔ کہ تامل وانکار کی وجودہ کیا ہیں *۔ حل لغات :۔ مغوم ۔ نادان * متقون ۔ گراں باد * الحوت ۔ مچھلی * مکتوم ۔ غم غصہ میں مبتلا ، غم اور اندوہ سے معمور *۔