سورة الملك - آیت 27

فَلَمَّا رَأَوْهُ زُلْفَةً سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا وَقِيلَ هَٰذَا الَّذِي كُنتُم بِهِ تَدَّعُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

پھر جب وہ اس (عذاب) کو نزدیک دیکھ لیں گے تو ان کافروں کے چہرے بگڑ جائیں گے [٣٠] اور انہیں کہا جائے گا کہ یہی وہ چیز ہے جو تم مانگا کرتے تھے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ف 1: قریش مکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ہمیشہ ہلاکت کے طالب رہتے ۔ اور دعا کرتے کہ کہیں ان پر ہمارے دیوتاؤں کا غضب بھی نازل ہو ۔ اس کا جواب مرحمت فرمایا ہے ۔ کہ آپ ان سے کہہ دیجئے ۔ کہ میں تو موت سے خائف نہیں ہوں میں اور میری جماعت خندہ پیشانی موت کا خیر مقدم کریگی ۔ ہم کو اللہ پر پورا پورا اعتماد ہے ۔ ہمیں وہ ہلاکت وفناکا ہدف بنائے ۔ خواہ رحمت وکرم سے نوازے اور ایک عرصہ تک مزید زندہ رکھے ۔ تمہیں اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا ۔ سوال یہ ہے کہ تم لوگوں کو اس عذاب سے جو مقدمات میں سے ہے ۔ کون بچا سکے گا جب موت تمہارے سامنے آغوش کھولے آکھڑی ہوگی ۔ اور جہنم کے شعلے تمہاری جانب ایک رہے ہوں گے ۔ اس وقت تم کو کون اپنی پناہ میں لے گا ۔ ہمارا ایمان اس خدائے رحمان پر ہے ۔ جس نے اس دنیا میں بھی دستگیری فرمائی ہے اور عاقبت میں بھی وہ اپنے فیوض سے ڈھانپ لیگا ۔ ہمارا اس پر بھروسہ ہے ۔ اور اسی کو اس سلسلہ میں لائق اعتما لکھتے ہیں ۔ مگر عنقریب جب دنیا کروٹ لیگی ۔ تو تمہیں معلوم ہوجائے گا ۔ کہ کون گمراہ ہے ۔ اور کون راہ راست پر ۔ تم اللہ کی بوقلمون نعمتوں سے صبح وشام استفادہ کرتے ہو ۔ وہ اگر تم سے یہ استعداد یہ استفادہ کو چھین لے ۔ تو بتاؤ تم کیا کرو کیا اس زندگی کے لوازم کے لئے تم سراپا اس کے محتاج نہیں ہوا *۔ حل لغات :۔ ذرائکم ۔ پھیلا دیا * رنفۃ ۔ قریب *۔