قَالُوا بَلَىٰ قَدْ جَاءَنَا نَذِيرٌ فَكَذَّبْنَا وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ اللَّهُ مِن شَيْءٍ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا فِي ضَلَالٍ كَبِيرٍ
وہ کہیں گے : ’’ کیوں نہیں، ڈرانے والا تو ہمارے پاس آیا تھا مگر ہم نے اسے جھٹلا دیا اور کہا : اللہ نے تو کچھ نہیں اتارا، تم ہی بڑی گمراہی میں پڑے [١٣] ہوئے ہو‘‘
پردہ زنگاری میں ف 1: سابقہ آیات میں یہ بتایا تھا کہ یہ نظام کائنات بہرنوع کامل ہے اس میں کوئی نقص وعیب نہیں ہے ۔ اور اس کو دیکھ کر بادنی تامل ہر شخص کہہ سکتا ہے ۔ کہ اس کو بنانے والا اور کتم عدم سے وجود میں لانے والا کوئی صاحب علم وقدرت خدا ہے ۔ اس پردہ زنگاری کو دیکھ کر شبہ نہیں ۔ بلکہ یقین ہوتا ہے ۔ کہ اس میں کوئی معشوق ضرور پنہاں ہے ۔ اس زندگی وموت کے تسلسل کو مشاہدہ کرنے کے بعد کون ہے ۔ جو تلی اور ممیت ذات کا انکار کرسکے ۔ اور اس سقف زنگار کی آرائش وخوبی کو دیکھ کر کہیں میں جرات ہے ۔ کہ اس نوزانی جہان کو تسلیم نہ کرے ۔ پھر وہ لوگ جو ان سب چیزوں کو صبح ومساء دیکھتے ہیں ۔ اور ذات خداوندی اور ایمان کی نعمت سے بہرہ ور نہیں ہوتے ان کے اے منسوائے جہنم کے اور کہاں ٹھکانا ہوسکتا ہے *۔ یہ لوگ اس وقت تو اس ہولناک منظر کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے ۔ کہ کیونکر اس آگ کی تپش اور حرارت کو برداشت کرسکیں گے ۔ جو مارے غصے کی پیچ وتاب کھاتی اور چیخ رہی ہوگی ۔ مگر جب ایک گروہ کی شغل میں ان کو دوزخ میں جھونکا جائیگا ۔ اور فرشتے ازراہ تحقیر پوچھیں گے ۔ کہ کیا تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نذیر نہیں آئے تھے ؟ جو تمہیں برائیوں سے روکتے اور انکار وتمرہ سے منع کرتے ۔ کیا انہوں نے اس مقام کی سختیوں اور تکلیفوں کے متعلق تم سے کچھ نہیں کہا تھا ۔ تو اس وقت یہ لوگ اپنی کوتاہی فکر اور بدعملی کا کھلے لفظوں میں اعتراف کریں گے ۔ اور کہیں گے کہ بلا شبہ اللہ کے پیغمبر ہمارے پاس آئے تھے ۔ مگر ہم نیان کو اس وقت تسلیم نہیں کیا ۔ اور الٹا ان کو مورد الزام ٹھہرایا ۔ اگر اس وقت فہم وبصیرت سے کام لیتے ۔ حق بات کو سنتے اور دل میں اتارلیتے ۔ تو آج یہ روز بدو دیکھنا نصیب نہ ہوتا ۔ مگر آہ کہ یہ اعتراف اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکے گا ۔ اس وقت کا اقرار سوائے اس کے کہ حسرت اور کوفت میں اضافہ کردے ۔ کوئی فائدہ انہیں پہنچائے گا *۔ حل لغات :۔ رجوما لشیطین ۔ اس کی دو صورتیں ہیں ایک تو یہ کہ جب ارواح خبیثہ آسمان کی طرف پرواز کرتی ہیں اور اسرار لاہوت کو معلوم کرنے کی کوششیں کرتی ہیں ۔ تو ان سیاروں میں سے ایک برقی رو نکلتی ہے ۔ جو ذرات فلکی کو آگ لگا دیتی ہے ۔ اور وہ شہاب ثاقب بن کر ان پر گرتے ہیں اور اس سے بہ سلسلہ سماعت ونعمتیں منقطع ہوجاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے بروج اور ستاروں کو ہی طرح بنایا ہے کہ کاہن ان کو دیکھ کر کوئی قطعی اور ہمتی پیشگوئی نہیں کرسکتے بلکہ جو کچھ کہتے ہیں ۔ وہ محض الاقبیل رحم یا صفت ہے * شھیق ۔ زورکی آواز * قبضہ ۔ جونس مارضے سے تعبیر ہے *۔