ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَهُوَ حَسِيرٌ
پراسے باربار دیکھو۔ تمہاری نگاہ تھک کر ناکام [٨] پلٹ آئے گی۔
ف 2: جس طرح زندگی ایک ایجابی حقیقت کا نام ہے ۔ اسی طرح موت بھی صرف عناصر کا پریشان ہونا نہیں ۔ بلکہ ایک مثبت شئے ہے ۔ جو خدا کے قبضہ قدرت میں ہے ۔ اور ان دونوں حقیقتوں پر عالم کون وفساد کی بنیادیں استوار ہیں ۔ فرمایا ۔ کہ اس مقام حیات وممات کی غرض اور غایت یہ ہے ۔ کہ زندگی کو موت پرغلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرے ۔ اور انسان اپنے حسن عمل سے یہ ثابت کردے ۔ کہ یہ اللہ کا نائب ہے ۔ اور شجروحجر کی طرح زندگی پسند نہیں کرتا *۔ اس کے بعد کارگاہ حکمت کی طرف انسانی ذہن کو متصف کیا ہے کہ اس میں تمام قسم کی ضروریات کو مہیا کردیا گیا ہے ۔ خواہ کتنا ہی باریک بین انسان ہوجب اس پر غور کریگا ۔ تو اس میں کوئی نقص نہیں پائے گا ۔ نگاہ تعمتق وفکر تھک جائے گی ۔ اور اس میں عیب نہیں نکال سکے گی *۔